مجھے کچھ عرض کرنا ہے!
جولائی 1993 کا زمانہ ہے، صدر غلام اسحق خان اور وزیرِ اعظم نواز شریف دونوں ضد پر قائم ہیں۔ایسے میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کیلئے سنگاپور سے ایک پاکستانی نژاد معین الدین قریشی کو نگراں کے طور پر ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کو کہا گیا۔ یہ اُلٹ پھیر کا آغاز ہوا … اُس وقت کے سیاستدانوں نے ’ واضح ‘ آواز نہیں اُٹھائی کہ کیا پاکستان میں ایسا ایک بھی شخص نہیں جو نگراں وزیرِ اعظم کے منصب کے لائق ہوتا … معین الدین قریشی کو کیوں ’’درآمد ‘‘ ہونے دیا؟ 1999 میں وقت نے کروٹ بدلی اور پرویز مشرف دور کا آغاز ہوا۔ مالی بحران میں مبتلا پاکستانی حکومت کو بھی ایسا ایک شخص نہیں ملا جو اقتصادی امور کی سمجھ بوجھ رکھتا لہٰذا وہی معین الدین قریشی والی بات دھراتے ہوئے امریکہ سے شوکت عزیز کو درآمد کیا گیا جو اُس وقت نیو یارک میں سٹی بینک کے صدر تھے۔ان کو و زارتِ خزانہ سو نپ کر بعد میں خانہ پوری کے لئے سنیٹر بھی بنا دیا گیا ۔جب وزیرِ اعظم ظفر اللہ جمالی نے جون 2004 میںاستعفیٰ دیا تب پاکستان مسلم لیگ (ق) کی اعانت سے شوکت عزیز کو قانونی شِق پوری کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں اٹک سے سیٹ دلوا کر وزیرِ اعظم بنوادیا گیا۔یہ 20 اگست 2004 سے 15 نومبر 2007 تک وزیرِ اعظم رہے۔ جب عام انتخابات میں دوہری شہریت کے حامل افراد کے اہل ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھڑی تو بقول شخصے پنڈورا باکس بھی کھُل گئے۔ اللہ اللہ کر کے طے ہوا کہ پاکستان کی پارلیمان میں پاکستانی ہی بیٹھ سکتے ہیں۔ ایک دروازہ بند ہوا تو دوسرا کھول لیا گیا۔من پسند افراد ’’ مشیر ‘‘بنا کر مسلط کر دئے گئے جن کا درجہ وزیر کے برابر رکھا گیا ۔یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو کبھی انتخاب جیت کر آ ہی نہیں سکتے ۔ کہانی مشیروں سے آگے بڑھ گئی۔اب مشیروں کے علاوہ معاونِ خصوصی بھی ہو نے لگے ۔ عام آدمی تو حیران ہے کہ وزیروں کے ہوتے ہوئے مشیروں کی بھلا کیا ضرورت ؟ اور پھر معاونِ خصوصی … یہ ہونا ہی نہیں چاہییں۔اپوزیشن کے شور مچانے پر اِن کے اثاثے اور شہریت کی تفصیلات عام کرنے کی بات مان لی گئی۔ سنیٹر شیری رحمن کا کہنا تھا کہ جب پارلیمان کے ممبران دوہری شہریت کے نہیں ہو سکتے تو پھر کابینہ میں دوہری شہریت والے مشیر اور خصوصی معاون کیوں کر بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں اب مشیر بھی باہر سے آئیں گے؟ یہ کہنا کہ فلاں تو اپنے میدان میں یکتا ہے اور پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی دوہری شہریت چھوڑ کر صرف پاکستانی شہریت رکھ کر دکھا دے !! باہر سے ’ ماہر ‘ بلوانے کی اِس روایت کو اب ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے اپنے ملک میں صلاحیت اور ہنر موجود ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جس نے کسی اور ملک سے وفاداری کا حلف اُٹھا رکھا ہے اُس کو اپنے ہاں اتنی اہم وزارتوں میں ذمہ داری دینا کوئی دانشمندی تو نہیں !! ماضی قریب میں وزیرِ اعظم کے دو معاونینِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا برائے صحت اور تانیہ ایدروس برائے ڈیجیٹل پاکستان کی خاصی شہرت ہوئی۔ یہ دونوں وزیرِ اعظم کی دعوت اور پاکستان کے لئے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب عالمی ادارہ ء صحت اور تانیہ گوگل کی ایک بے حد پُر کشش تنخواہ چھوڑ کر آئی تھیں۔
ویسے وہ جو کہاوت ہے کہ جو ہوتا ہے ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ کیا کبھی اس سے پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ خود وزیرِ اعظم اپنے مشیروں کے اثاثے اور شہریت وغیرہ پبلک کرنے کو کہے گا؟ یہ کوئی معمولی بات نہیں !! کیا ہی اچھا ہو کہ عوام کی گردن سے ’ افسر شاہی ‘ کی غلامی کے طوق بھی اُتار دیے جائیں۔ سلاطینِ دہلی کے سلطان علائو الدین خِلجی ( المتو فی جنوری 1316 ) کا دور تھا ۔بازار میں ہر ایک چیز کی قیمت مقرر تھی۔ نہایت ہی سختی سے اس پر عمل کروایا جاتا تھا۔
اب آئیے’’ افسر شاہی ‘‘ کی جانب… سرکاری افسران کی آمدن سے زیادہ اخراجات اور اثاثوں کی اتنی سخت جانچ پڑتال ہوتی کہ اُس دور میں نوکر شاہی والے اپنے بچوں س کو نصیحت کرتے کہ کچھ اور کر لینا لیکن افسر شاہی میں نہ جانا۔ سلطان نے منڈیوں میں ’ بیچ کے آدمی یعنی مِڈل مین کا کردار ہی ختم کر ڈالا تھا۔ذخیرہ اندوزی، کم تولنا، ملاوٹ وغیرہ کی اتنی عبرت ناک سزائیں تھیں کہ اللہ کی پناہ … جب ہی تو کیا خاص کیا عام سلطان علائوالدین کے مرنے کے بعد بھی ایک عرصہ ’’ انسان ‘‘ بنے رہے۔انسان کیسے بنے رہے؟ سخت اور فوری احتساب کے خوف سے !!