وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاست یا ہماری باڈی آف پو لیٹکس میں جو پختگی آنی چاہے تھی وہ نہیں آسکی ہے ۔مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ،سیاست دانوں سے لے کر بیو رو کریٹس سے کاروباری قیادت میں بھی تنزلی دیکھنے میں آرہی ہے ۔اسوقت ہماری بیو رو کریسی میں غلام اسحاق خان کے پائے کا کو ئی بھی بیو رو کریٹ موجود نہیں ہے اور نہ ہی سیاست میں نواب زادہ نصر اللہ خان کی سطح کا کوئی سیاست دان موجود ہے اور نہ ہی کاروباری برادری میں کوئی بہتر قیادت نظر آرہی ہے ۔ہر شعبہ زندگی میں ایک انحطاط نظر آرہا ہے ۔اور ہم تنزلی کی پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں ۔ہماری مثال اسی طرح کے بچے کی طرح کی ہو چکی ہے ،جس کے ہاتھ میں کھولنا دے دو تو اس کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں ۔آج ہماری سیاست بالکل ہی سوچ اور عقل مندی سے فارغ نظر آرہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کا اور حب الوطنی کا سہارا وہی لوگ لیتے ہیں جن کے پاس سیاست میں اپنے لوگوں کو بتا نے کے لیے اور کچھ نہیں ہو تا ہے ۔اور احمق لوگ ہی اس راہ کو اپناتے ہیں ۔اور آج ہمارے حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ہم پہلے سے ہی مذہبی شدت پسندی اور اس پیرائے میں ہونے والی دہشت کے باعث دنیا میں بہت بدنام ہو ئے ہیں اور ابھی دنیا میں اس حوالے سے تنہائی کا شکار ہیں ۔یہ قوم اور یہ ملک جنگ اور جد ل سے نہیں بلکہ ایک جمہوری اور قانونی عمل کے نتیجے میں معرض موجود میں آیا تھا ۔اور صرف سیاست کے ذریعے ہی اس ملک کو آگے لے جایا جاسکتا ہے ۔لیکن ہم اس ملک میں شروع سے ہی اس کام کو کرنے میں ناکام ہو ئے ہیں اور ہم نے مذاکرات بات چیت اور جمہوری عمل پر لڑائی اور جنگ کو زیادہ ترجیح دی ہے ۔ہم مشرقی پاکستان کو ساتھ لے کر نہیں چل سکیں ہیں اور ملک کو یکجا رکھنے میں ناکام ہو ئے ہیں ۔جمہوریت میں اکثیرت کی اہمیت مسلمہ ہوا کرتی ہے اکثریت کے بغیر کچھ نہیں ہو تا جس کی اکثریت ہو تی ہے اسی کا بول بالا ہو تا ہے ۔لیکن اگر اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اگر پاکستان میں بلوچستان کے صوبے کو دیکھا جائے تو اس کی ایک منفرد مثال ہمارے سامنے آتی ہے ۔بلو چستان کی آبادی کم ہے لیکن رقبے کے لحاذ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔لیکن اس کی آبادی پنجاب کے دو اضلاع کے برابر بھی نہیں ہے ۔بلوچستان کا صوبہ طویل عرصے سے بہت سے مسائل اور بد امنی کا شکار ہے ،اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے ۔حال ہی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ ،بر سر روزگار اور دو بچوں کی ماں لڑکی نے جس کا خاندان بھی ایک اچھا خاندان ہے اس نے کراچی میں چین کے اسا تذ ہ پر خودکش حملہ کیا ۔اس واقعے نے مجھے اندر تک سے ہلا کر رکھ دیا ۔اس واقعے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے تمام اسٹیک ہو لڈر اور کابرین کو اسر نو تمام معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی طور پر ،معاشی طور پر اور باہمی یکجہتی کے لحاذ سے ہم اس وقت کہاں کھڑے ہوئے ہیں ؟ ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور بڑے پیمانے پر ان تمام پالیسوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔خاص طور پر بلوچستان کے حوالے سے معاملات کو دوبارہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔بلوچستان کے عوام کے تمام مسائل اور ان کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے کسی بیرونی امداد کی بھی ضرورت نہیں ہے بس کچھ انتظامی معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔باقی تینوں صوبوں کو مل کر بلوچستان کے مسائل جو کہ عوامی مسا ئل ہیں ان کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر مسائل کا حل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔عوام ہی کسی بھی ملک کی بنیادی اکائی ہو تے ہیں اور جب تک عوام خوش نہ ہوں حکومتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا ہے ۔بلوچستان کے عوام کو فوری طور پر ان کے مسائل کا حل تمام سہولیات اور وہ تمام گا رنیٹز دی جا ئیں جو کہ امن کی ضمانت بن سکیں ورنہ یہ حالات بگڑتے ہی چلے جا ئیں گے ۔عسکری ذرائع کے استعمال سے نہ مسائل ماضی میں حل ہو ئے ہیں اور نہ اب ہوں گے ،ہمیں یہ معاملہ جمہوری طور پر مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا ہو گا ۔ یہ ملک بات چیت سے بنا تھا اور بات چیت کے ذریعے ہی اس ملک کو چلا یا جاسکتا ہے ۔اگر ہم نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان سے بات چیت کر لی ہو تی تو شاید آج ملک ایک ہی ہو تا لیکن بہر حال اب آگے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔آج کی سیاست میں پھر کہوں گا کہ ایک بچگانہ اور غیر سنجیدہ سیاست ہے کسی کے بیانئے یا کسی کسی خواہش پر دنیا سے تعلقات توڑے نہیں جاسکتے ہیں ۔ہمیں دانش مندی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے ۔اپنے زاتی مفادات کے لیے ملک کے مفاد کو دائو پر نہ لگایا جائے ۔اس ملک میں کسی چیز کی کو ئی کمی نہیں ہے۔
اگر کوئی کمی ہے تو وہ تعلیم کی کمی ہے اور عدالتی تحفظ کی کمی ہے کہنے کا مطلب ہے کہ عام عوام کو عدل میسر نہیں ہے جو کہ کسی بھی شہری کو ایک بنیادی تحفظ اور حقوق کا ضامن ہو تا ہے ۔جب تک کہ ہر شہری کو تعلیم اور عدل میسر نہ ہو اس کی حقیقی معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار شہری نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ہمیں اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔یہ ملک سچ کی بنیاد پر اور سچ پر مبنی جہدو جہد کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور آج بھی اگر ہم اس ملک کو آگے لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں تو ،ہمیں سچ کے راستے کو اپنانا ہو گا ،حقیقت کو حقیقت کہنا ہو گا اور ماننا ہو گا یہی وہ واحد راستہ ہے جو کہ اس ملک کو مسائل کی گہری دلدل سے نکال سکتا ہے اس کے علاوہ امید کی کو ئی کرن موجودہ حالات میں تو نظر نہیں آرہی ہے ۔