سابقہ حکومت، ایک متفقہ بیانیہ
پہلے ووٹ بے عزت ہوا تھا اشرافیہ کے ہاتھوں اب ’ٹکٹ‘ بھی بے وقعت ہو گیا بالآخر ’ووٹ‘ کی ساکھ بحال ہوگئی۔عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ باعث بنے گا ۔ ہر وہ چیز کینسر ہے جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کرنے کا باعث بنی ۔ دونوں بڑی جماعتوں نے متواتر برے سیاسی تجربات کے بعد اچھا قانون بنایا تھااب وقت آگیا ہے والی اعلیٰ رائے کی تجویز پر ٹھوس عملی پیش قدمی کا ۔ عوامی رائے تو یہی ہے کہ تا حیات نا اہلی ہونی چاہیے ۔ ضرورت ہے کہ اگر مگر یہ فلاں کی بجائے واضح، ابہام سے پاک قانون بنائیں تاکہ سیاسی استحکام کے ساتھ خریدوفروخت کا سدباب ہو جائے ۔ جن ایشوز پر عدم اعتماد لائی گئی وہ اب پہلے سے بڑھ کر سنگین ہو چکے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ ، ڈالر سبھی بے لگام، اب تو ایک نہیں گیارہ جماعتوں کی متحدہ حکومت ہے اتنی بھرپور طاقت کے باوجود ؟ بہت ساری باتوں کے ساتھ ملکی مفاد کی بھی تشریح اور تفسیر کر دی جائے ۔ تماشا نہیں ہر وہ شخص جو کرپٹ ہے بلا تفریق احتساب کے عمل میں لایا جانا ضروری ہے۔ جو بھی ملوث ہے چاہے سابقہ یا موجودہ سب کو پکڑیں ۔ اگر ٹھوس ثبوت ہیں تو سزا بھی دلوائیں ۔
پرانے مضامین پڑھ لیں ۔ سرخیاں دیکھ لیں۔ برقیاتی ٹکرز ملا خطہ کر لیں۔ تب بھی لمحہ موجود والے حالات تھے۔ بیانات تھے تب بھی عوام بے بس، غریب، پریشان تھے۔ معاشی دیوالیہ نکلنے کی اطلاعات ، پیش آنے والے واقعات پر مبنی خوفناک کہانیاں زبان زد عام تھیں ۔حکومت کمزور تھی۔ قارئین، سوچیے تب بھی اشرافیہ طاقتور ۔ امیر ترین تھی اور آج بھی ہے تو حالات خراب کس کے ہوئے ؟عوامی شرکت ، پذیرائی کے محیر العقول مناظر، تحریک پاکستان جیسے جذبات ۔ چند سو نہیں، لاکھوں، اب کون ان سے ٹکرا سکتا ہے ؟ یہ وہ قوم ہے جو گرمی میں سورج کی ہلکی تمازت بڑھنے پر اپنے کاروباری مراکز سے چھٹی کر لیتی تھی ۔ سورج بھی انتہا درجہ کی حدت پر اور مافیاز بھی انتہا درجہ کی بے حسی ، لاتعلقی پر نہ بجلی پوری، نہ روٹی پوری، نہ آمدنی تسلی بخش۔
بہت برے تجربات کے بعد فلور کراسنگ کے انسداد کے لیے قانون بنا تو حقیقتاً عوام نے خوشی کا اظہار کیا۔ اب جو حالات ہیں کوئی بھی گند پر خوش نہیں ۔ مسائل کا حل موجود ہے اگر نیت ہو ۔ اظہارِ رائے کا موزوں فورم موجود ہے تو پھر لوٹا کریسی کا کیا جواز ؟ ہماری تو درخواست ہے کہ نا اہلی چند سال کی نہ ہو، تا حیات نا اہلی ہونی چاہیے، وہ بھی اس طرح کہ پورے خاندان کو تا حیات نا اہل قرار دینے کا حکومت قانون بنائے تاکہ خیانت کرنے والے صدیوں یاد رکھیں۔ مزید برآں اپیل کا حق بھی نہ دیں۔ ممبران کسی بھی پارٹی کے ہوں ۔ سب پارٹی سربراہان مل بیٹھ کر قانون میں موجود سقم دور کریں۔ ذاتی، سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر اس ناسور کے تدارک کا اہتمام کریں ۔ نہ ملک، نہ اہل سیاست کسی کے بھی ایسی روش مفاد میں نہیں۔ کارخانے رواں ہیں۔ چیزیں بک رہی ہیں ۔ دفاتر، کالجز، سکولز کھلے ہیں ۔ اخبارات چھپ رہے ہیں ۔ برقی ذرائع پوری قوت سے بول رہے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں ۔ ہوٹلز میں سیاسی پارٹیاں عروج پر ہیں۔ مملکت کا کاروبار چل رہا ہے۔ کس بحران کی باتیں کی جا رہی ہیں؟ کہاں ہے بحران؟ گھر سے نکل کر سڑک پر آئیں ۔ کہیں دکھائی نہیں دیا ۔ پہلے بھی یہی معمولات تھے ۔ حکومت اپنی موج میں تھی اپوزیشن اپنی مستی میں ۔ عوام عالمِ بے ہوشی میں کہ جن کو صرف ووٹ دینے کے وقت پوچھا جاتا ہے ۔ ہم پہلے بھی اپنا کماتے تھے ۔ اپنا کھاتے تھے اب بھی وہی حالات ہیں۔ ہاں بس اب ذرا کرسی کی تڑپ سوا ہوئی تو شورو شغب بڑھ گیا ۔ ملک میں صرف سیاسی پارہ ہائی ہے دیکھا جائے تو یہ کب ہائی نہیں ہوا۔ جس سے بھی اقتدار گیا وہ پوتر بن کر قوم کا مونس بن جاتا ہے۔ کیا اس کو جمہوریت کہہ سکتے ہیں ؟ کیا یہ جمہوریت کا سبق ہے ؟کیا یہ جمہوری روایات ہیں ؟مان لیں لیں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل صرف نئے الیکشن ہیں ۔ صرف الیکشن کا انعقاد ضرورت نہیں ۔ مکمل شفاف چناؤ تمام مسائل کا حل ہے۔ اسی صورت میں سیاسی پارہ گر سکتا ہے۔
وہی پرانی باتیںخزانہ خالی ملا ، سابق حکومت کی نا اہلی سے معیشت ڈوب گئی، سابق حکومت کی نالائقی سے کارخانے بند ، ڈالر بلند ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر نئی حکومت کہتے کہتے سابق ہو جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم ، مہنگائی کم کرنے کی جمہوری وعدوں کے باوجود دونوں عروج پر۔ جمہوریت کی کونسی شق اجازت دیتی ہے کہ عوامی تائید سے اختیار حاصل کرنے والے جھوٹے دعوؤں سے عوام کو رلائیں ۔ صرف حکومت نہیں،اپوزیشن بھی 100% خطرے میں ہے ۔ مہینہ پہلے علانیہ کہا تھا کہ ترپ کا پتا عمران خان کے پاس ہے۔ مستقبل میں بننے والی حکومت بھی اسی خطرے میں رہے گی اگر یہی روش رہی اور اگر یہی سیاست مروج رہی تو پھر عوام تو کیا پورا ملک 100% سے بھی زائد خطرے میں ہوں گے۔ بہتر ہے کہ سب مذموم حرکات ، انسانی خرید و فروخت سے تائب ہو جائیں ۔ سوچ لیں کہ جن چیزوں کی سب متفقہ زبان میں مذمت کرتے رہے ہیں کیا آج وہ اپنے موقف کی خود سے نفی نہیں کر رہے؟ (مطبوعہ18 مارچ 2022 ئ)
سیاسی ڈیڈ لاک ختم نہیں ہونے والا ۔اب چونکہ خود کو خادم پاکستان سے ملقب کر لیا ہے تو حقائق کو مان کر فوری طور پر الیکشن کی طرف چلے جائیں ۔ آج نہیں تو کل یہ امر ہو کر رہنا ہے ۔ یہ دباؤ ، بلیک میلنگ سے بہترین آپشن ہے۔ کریلے اور گاجر کو آپ ایک ہی وقت میں ہنڈیا میں نہیں ڈال سکتے ۔ پکانے پر بندش نہیں مگر جب کوئی کھا نہیں سکتا تو فائدہ ؟ تمام مسائل کا حل شفاف چناؤ ہے ۔ ایسا شخص جو خود کو خادم کہلا نا پسند کرتا ہے۔ خدمت کرنے کا جذبہ رکھتا ہے اور ماضی بھی اس حوالے سے روشن ہو۔ اس کو کیا ڈر ہے ؟ ووٹ تو عوام نے دینے ہیں۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔ پھر جو بھی نتائج ہوں اس کے مطابق جو جیت کر آئے حکومت کرے۔ (مطبوعہ22 اپریل 2022ٔئ)