گھبرانے والی کوئی بات نہیں
صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لئے بھجوائے گئے ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ کے بڑے بنچ نے جو تشریح کی ہے اْس پر پاکستان تحریک انصاف بہت خوش ہوئی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تو سپریم کورٹ کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔ سپریم کورٹ کی اس تشریح کے موجودہ حکومتوں پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر مختلف آئینی ماہرین کی رائے بھی تقسیم نظر آرہی ہے اگر اس فیصلے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف پھر خالی ہاتھ رہ جائے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ کہنا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا انتہائی اہم بات ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا وزیراعظم شہبازشریف نے وزیراعظم بننے کے لئے کسی منحرف رکن کا ووٹ لیا تھا۔ اس کا جواب نفی میں ہے لہٰذا ان کی حکومت کو اس فیصلے سے کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی اتحادی جماعت سے کوئی رکن منحرف ہونا چاہتا تھا تو وہ اب نہیں ہو سکے گا جس سے مسلم لیگ (نون)، پیپلزپارٹی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، اے این پی سمیت کسی بھی جماعت کا کوئی رکن اس لئے بھی منحرف نہیں ہوگا کہ ان کے منحرف ہونے سے ان کا ووٹ استعمال نہیں ہو سکے گا۔ دوسرا اْسے اپنی نشست سے ہاتھ دھو نا پڑیں گے لہٰذا اس فیصلے سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ وفاقی حکومت کے حق میں چلا گیا اور پی ٹی آئی اس سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی تاہم پنجاب میں حمزہ شہبازشریف کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے مسلم لیگ نون کو پریشانی ہو سکتی ہے۔البتہ اس حوالے سے آئینی ماہرین کی رائے کا آنا ابھی باقی ہے کہ آیا اس فیصلے کا اطلاق گزشتہ اقدامات پر ہوگا۔ اگر اس کا اطلاق وزارت اعلیٰ کے انتخاب پر ہوتا ہے تب بھی حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ پر کوئی خاص فرق اس لئے پڑنے کا امکان نہیں کیونکہ منحرف اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ان کے نہ ہونے سے پی ٹی آئی کے ووٹ کم ہونگے جس کے بعد اسمبلی کے اندر سادہ اکثریت نون لیگ اور اْس کے اتحادیوں کے پاس ہی رہے گی۔ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے آئینی طریقہ کار کے مطابق اگر پہلی رائے شماری میں کوئی امیدوار ایوان کے نصف ارکان کی حمایت حاصل نہیں کرسکتا تو دوبارہ رائے شماری ہوگی اور پھر سادہ اکثریت حاصل کرنے والا وزیراعلیٰ منتخب ہو جائے گا۔ اگر 25 ارکان کی رکنیت ختم ہوتی ہے تو حمزہ شہباز کے پاس 176 ارکان کی حمایت موجود ہوگی جبکہ پی ٹی آئی اور اس کے حمایتیوں کے پاس 165 ارکان رہ جائیں گے لہٰذا حمزہ شہباز دوبارہ منتخب ہو جائیں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس سپریم کورٹ کی تشریح کے خلاف نظرثانی کی اپیل کا حق بھی موجود ہے اگر وہ محسوس کریں کہ اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا مناسب ہے تو یہ معاملہ مزید لٹک بھی سکتا ہے مگر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے اور انہوں نے گزشتہ روز بھی پنجاب میں اعلیٰ بیوروکریسی کے وسیع پیمانے پر تبادلے کیے جس میں صوبے میں تعینات 15 سیکرٹریز چھ کمشنرز اور متعدد ڈی جیز شامل ہیں ۔ وسیع پیمانے پر اعلی سطحی تبادلوں میں ایک مخفی پیغام یہ بھی ہے کہ طاقت کا محور حمزہ شہباز ہی ہیں گو کہ ان اعلی سطحی تبادلوں میں حمزہ شہباز کی سفارش پر چند ہی تبادلے ہوئے ہیں باقی سیکرٹری سروسز شہریار سلطان نے اپنے قریبی 25 کامن کے افسران کے تبادلوں میں کردار ادا کیا ہے جس میں کمشنر بہاولپور لیاقت چھٹہ جو شہباز شریف کے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری رہے ہیں اور حمزہ شہباز انھیں چاچا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کو سیکرٹری لیبر لگایا گیا ہے ماضی میں ن لیگ کی پنجاب حکومت میں احسن وحید حمزہ شہباز کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں کو سیکرٹری ٹرانسپورٹ پنجاب، سیکرٹریٹ گروپ کے محمد علی عامر کو سیکرٹری مائنز اینڈ منرل لگایا گیا ، علی سرفراز سیکرٹری ہاوسنگ اور صائمہ سعید کو سیکرٹری ایکسائز لگا دیا گیا ہے جبکہ پچیس کامن کے سابق سیکرٹری ایکسائز وقاص علی محمود جنکی پنجاب میں گراں قدر خدمات ہیں انہیں سیکرٹری سوشل ویلفیئر لگا دیا گیا ۔سابق ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ جو لاہور میں اربوں روپے کے پراجیکٹس بہت خوش اسلوبی سے مکمل کرچکے ہیں کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انھیں ڈی جی آرکیالوجی لگا دیا گیا ۔ بہر حال فواد حسن فواد نے بھی مجاہد شیر دل کو سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو لگوا کر اپنا فرض ادا کیا ہے ،سیکرٹری ٹو سی ایم نبیل اعوان نے اجمل بھٹی کو سیکرٹری انرجی کا پورٹ فولیو دے دیا ہے ،اجمل بھٹی نبیل اعوان کے ساتھ سپیشل سیکرٹری خدمات انجام دے چکے ہیں۔ شنید ہے کہ ڈی جی پی آر ثمن رائے کو بھی تبدیل کیا جارہا ہیَ انھیں کسی محکمے میں ڈی جی یا سیکرٹری لگایا جارہا ہے ۔وہ ایک پروفیشنل، ویژنری ،انتھک اورمحنتی آفیسر ہیں۔ سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر بھی اچھی شہرت کی بدولت پسندیدہ افسران میں شمار ہوتے ہیں۔ ثمن رائے اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت میں بہتر بخدمات انجام دے سکتی ہیں ۔ پی ٹی آئی حکومت میںنظر انداز ہونے والے گریڈ بیس کے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل ڈی جی لیبر ڈاکٹر فیصل ظہور کو بھی سیکرٹری تعینات کیا جانا چاہیے ۔جسکے بعد حمزہ شہباز اپنی بہترین بیوروکریٹک ٹیم بنا کر پنجاب میں خدمات انجام دے سکیں گے۔ امکان غالب ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔ مسلم لیگ (نون) کے سامنے سب سے بڑا چیلنج عوام کو ریلیف دینا اور معاشی بحالی ہوگا۔ گزشتہ روز جس طرح سے اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم شہبازشریف کو 2023ء تک مکمل حمایت اور فیصلوں کا اختیار دیا ہے اس کے بعد امید ہے کہ اب وزیراعظم اور ان کی کابینہ گومگو کی کیفیت سے نکل کر دلیرانہ اور سخت فیصلے کرے گی۔