جمعۃ المبارک ، 18 شوال 1443ھ‘ 20 مئی 2022ء
بجلی کا بحران وقتی ہے جلد قابو پا لیں گے: خرم دستگیر
یہ باتیں بہت ہو چکیں مگر عملی کام صفر ہی نظر آ رہا ہے۔ بجلی کا بحران نہ ہوا، پیر تسمہ پا ہو گیا جو اب عوام کے کاندھے سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی گرفت ہماری گردنوں پر مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور ہم بے بسی سے کچھ نہیں کر پا رہے۔ بس اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں ، کہیں سے کوئی مداوا کرتا نظر نہیں آ رہا۔ آئے بھی تو کیوں آئے، ہم نے بھی ہمیشہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر ہر طوفان گزرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ہر حکومت جانتی ہے ، ہر حکمران جانتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کا بحران ہر سال پوری شدت سے موسم گرما میں سر اٹھاتا ہے مگر کیا کسی نے بھی اس پھنیرے سانپ کا سر کچلنے کیلئے کوئی عملی اقدام کیا؟ نہیں کیا، بس ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کی۔ نہ نئے بجلی گھر بنے، نہ کالا باغ ڈیم بنا جو سب سے ارزاں بجلی فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مہنگے داموں کبھی کوئلہ کبھی فرنس آئل سے چلنے والے عارضی بجلی گھروں کو ہم نے بجلی کے بحران سے نجات کا ذریعہ سمجھ لیا مگر ہوا کیا ہر سال گرمیوں میں دیہی علاقوں میں 16 گھنٹے اور شہروں میں 12 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ عام ہے۔ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکمرانوں کو کوستے ہیں۔ اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی اگر یہ بحران حل نہیں ہوتا تو ہر حکومت اپنے وزیر توانائی اور متعلقہ محکموں کے ا فسران اور ذمہ داران کو اس کی نااہلی اور غلط پالیسیوں پر کسی بجلی کے پول سے لوڈشیڈنگ والے علاقے میں الٹا لٹکا دے تو دیکھیں یا تو آئندہ کوئی یہ عہدہ قبول نہیں کرے گا یا پھر بندے کا پتر بن کر کام کرے گا۔ بوسیدہ بجلی کی فراہمی کا نظام اور بجلی کی چوری جو بجلی فراہم کرنے والے محکموں کے ملازمین کے بھرپور تعاون سے جاری ہے صرف اس پر سختی سے قابو پا کر ہم کم از کم 30 فیصد سے زیادہ بجلی کی فراہمی میں بہتری لا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
نہاری پائے چپاتی اور سالن کھاکر باکسنگ کیرئیر بنانا ممکن نہیں:عامر خان
بات تو سوفیصد صحیح کہی ہے عامر خان نے۔ وہ یورپ میں رہتے ہوئے بھی دیسی کھانوں سے محفوظ نہیں رہ سکے جبکہ باکسنگ ایسا کھیل ہے جس میں چستی اور توانائی کے لیے سادہ طاقور اور بہترین خوراک لازمی ہے، جس کا استعمال یورپی باکسر کرتے ہیں اور دیکھ لیں طویل عرصہ رنگ پر چھائے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے دیسی کھانے لذت اور ذائقے میں بے مثال ہیں اور دیسی کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ اتنے ثقیل اور مرغن کھانوں کے بعد طاقت اور توانائی میں اضافہ نہ ہو ایک تو وزن تیزی سے بڑھتاہے اور دوسرا نیند کاخمار بھی تیزی سے چڑھتاہے جس کے بعد جسم کاہل اور آرام طلب ہوجاتاہے۔ عامر خان بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ہم صبح ناشتے میں 2 ابلے انڈے ایک مکھن دوتوس، خالص دودھ اورموسمی پھلوں کے جوس کی بجائے پائے، کھد اور زبان کے ساتھ دوڈبل کلچے، دوگلاس فل ملائی والی پیڑوں کی لسی اور ایک پراٹھا گرماگرم چائے کے ساتھ لیں گے تونتیجہ کیاہوگا۔ ہم طاقت بڑھانے کی بجائے نہایت تیزی سے وزن اور کولیسٹرول بڑھانے کی راہ پر چل نکلیں گے اور انجام کار موٹے اور آرام طلب ہوجائیں گے۔ سخت محنت، ٹریننگ اور پھرتی ہم سے یوں غائب ہوجائے گی جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔ یہ توعامر خان کا کمال ہے کہ انہوں نے اتنا عرصہ خود کو فٹ رکھا۔ ڈائٹنگ اور ٹریننگ پر توجہ دی جس کی بدولت انہوں نے طویل عرصہ باکسنگ کے رنگ پر حکمرانی کی۔ اب وہ ریٹائر منٹ لینے کے بعد جو کچھ کہ رہے ہیں اس پر نوجوان باکسروں کو توجہ دینا ہوگی اور ان کی نصیحت پر عمل بھی کرناہوگا۔
٭٭٭٭
کوہاٹ جلسے میں لائنگ کا انتظام درست نہ ہونے پر شہریار آفریدی کی سرزنش
شہر یار آفریدی کے ساتھ تو ایسا ہونا ہی تھا۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ خان صاحب اپنے ٹی وی پروگرامر ہوں یا جلسے ان سب میں اپنے گٹ اپ کے بعد روشنی کا مناسب انتظام کے حوالے سے خاصے متفکر رہتے ہیں۔ اس کے بعد جا کر موسیقی کا تڑکا لگا کر اپنے روایتی جلسوں کو چار چاند لگاتے ہیں۔ اپنے خوبصورت گٹ اپ اور بہترین روشنی کے حوالے سے تو وہ ایک ایک نجی ٹی وی چینل پر تعریفوں کے ڈونگرے برساتے بھی نظر آتے ہیں کہ وہ ان شعبوں میں سب سے بہتر کارکردگی رکھتا ہے۔ اب ان حالات میں جب انسان اتنا حساس ہو تو اگر اسے اپنے سامنے جلسہ گاہ کا بڑا حصہ اندھیرے میں ڈوبا نظر آئے تو اس کا پارہ ہائی نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ سو یہی ایک روز قبل کے کوہاٹ جلسے میں ہوا جہاں دوپہر کو چلنے والی تیز آندھی اور بارش نے جلسے کا سارا انتظام درہم برہم کر دیا۔ رات کو جلسہ ہوا تو آدھے کے قریب جلسہ گاہ تاریک تھی جس پر آئو دیکھا نہ تائو خان صاحب شہر یار آفریدی پر برس پڑے۔ اب شہر یار آفریدی نے اپنا غصہ اس ٹھیکیدار پر نکالا جو جلسے کے انتظامات کا ذمہ دار تھا۔ اس بے چارے کو پولیس لے گئی۔ بعدازاں جب چھوڑا تو اس نے بتایا کہ قصور اس کا نہیں طوفان کا تھا جس سے کئی بجلی کے پول گرگئے تھے۔ اب وہ روتا دہائی دیتا پھر رہا ہے کہ جلسے کے انتظامات کی مد میں 35 لاکھ روپے کی رقم شہر یار آفریدی نہیں دے رہے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ شہر یار آفریدی بھی ذرا دل نرم کریں اور اس غریب کو اس کا معاوضہ تو دیں۔ آئندہ جلسوں کے محتاط رہیں اور اپنے قائد کی نازک طبع کا خیال رکھیں ۔
٭٭٭٭
ژوب شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ بے قابو
یہ ایک حساس مسئلہ ہے، صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت اس جانب فوری توجہ دے جو پھرتیاں مارگلہ ہلز کی یا مری کے جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے میں دکھائی جاتی ہیں وہی پھرتیاں بلوچستان کے دور دراز علاقہ ژوب میں شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے میں بھی دکھائی جائے ورنہ لوگوں کے دلوں میں انہی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بڑی بڑی تلخیاں جنم لیتی ہیں۔ اہل بلوچستان پہلے ہی اپنی بری معاشی اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے چڑ چڑے ہوگئے ہیں۔ نہ وہاں کھانے کو کچھ ہے، نہ پینے کو صاف پانی، بجلی اور گیس سے شاید وہ زیادہ واقف نہیں۔ ان حالات میں ان کی اشک شوئی کی بجائے اگر جنگلات میں لگی آگ کے شعلوں کو ہوا دی گئی تو معاملہ اور خراب ہوا۔ یہ جنگلات ویسے بھی دنیا کے قیمتی صنوبر (جونیپر) اور چلغوزہ کے درختوں سے بھرے ہیں۔ یہ نایاب جنگلی حیات کے علاوہ پاکستان کا قومی نشان قرار پانے والے مار خور کیلئے بھی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ اس کے علاوہ چکور وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔ اب اس کئی دنوں سے لگی آگ نے اس جنگلی حیات کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ان کے رہنے کی جگہ ختم ہوگئی ہے۔ بڑے پیمانے پر مزید نقصان سے بچنے کیلئے پاک نیوی کی خدمات حاصل کرکے اس آگ پر قابو پانے کیلئے کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ علاقے کے لوگ بھی آگے بڑھیں اور اپنی مدد آپ کے تحت حکومتی آگ بجھانے کی کوششوں میں اس کا ساتھ دیں اور صوبے کی قیمتی دولت کو بچائیں۔