ایک اور منی بجٹ؟ عوام پر مزید معاشی بوجھ نہ ڈالا جائے
حکومت نے معاشی صورتِ حال کے پیش نظر غیر ضروری لگژری اشیائ، سامانِ تزئین و آرائش کی درآمد پر پابندی عائد کرنے اور بڑی گاڑیوں، موبائل اور امراء و اشرافیہ کی خوراک کی متعدد آئٹمز پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بدھ کے روز وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک کی معاشی تشویش ناک صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔شرکاء نے معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے سخت فیصلے کرنے پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں روپے کی بے قدری میں کمی آئے گی۔ وزارتِ تجارت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی مشاورت اور تجاویز کی روشنی میں متعدد اقدامات پر بھی غور و خوض کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ سپر سٹورز پر فروخت کے لیے درآمد کی جانے والی کتے اور بلیوں کی خوراک، پنیر، مکھن اور دیگر اشیاء پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ 1800 سی سی اور اس سے زائد پاور کی گاڑیوں کی درآمد پر 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 36 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اسی طرح موبائل فونز، سرامک ٹائلز، درآمدی مشینری، بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے مشینری، جیپ ، لگژری واٹر بوٹس، گھڑیاں، درآمدی ٹائرز، پاور جنریشن مشینز اور بجلی پر چلنے والے گھریلو آلات وغیرہ بھی بھاری ڈیوٹیز کی زد میں آئیں گے۔ وفاقی حکومت نے جس وقت یہ نئے منی بجٹ کی صورت میں درآمدات کا حجم کم کرنے کے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان کی معاشی ٹیم کے ارکان انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندوں کے ساتھ دوحہ ( قطر) میں مذاکرات میں مصروف ہیں جبکہ وزیر خزانہ اور وزیر مملکت اگلے ہفتے کے اوائل میں اس مذاکراتی ٹیم کے ساتھ شامل ہوں گے تاکہ مذاکرات کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا جائے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق حکومت آبادی کے کمزور طبقوں کا خیال رکھتے ہوئے معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے اقدامات کرے گی۔ علاوہ ازیں متعدد اشیاء پر سبسڈیز ختم‘ پرسنل انکم ٹیکس میں اضافہ سمیت 300 ارب کے ریونیو اقدامات بھی کیے جائیں گے جب کہ پٹرولیم انرجی سبسڈیز کا معاملہ بھی طے کیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق جولائی سے اپریل تک ملک کو 39 ارب 20 کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارے کے باعث درآمدات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ ملک میں رواں مالی سال کے دوران 11 ارب ڈالر سے زائد کی موبائل فون‘ گاڑیاں اور لگژری آئٹمز اور امراء و اشرافیہ کے استعمال میں آنے والی خوراکیں درآمد ہو چکی ہیں جبکہ ابھی مالی سال ختم ہونے میں دو ماہ باقی ہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں۔ ان میں سے کسی بھی حکومت نے سالانہ میزانیہ بناتے وقت زمینی حقائق اور عوامی مسائل و مشکلات کو پیش نظر نہیں رکھا۔ صرف اشک شوئی کی غرض سے ریلیف دیا جاتا ہے ۔ جس کے اثرات بجٹ کی منظوری کے بعد سال بھر کے دوران پٹرولیم مصنوعات‘ آٹا‘ گھی‘ تیل اور پانی و بجلی کے نرخوں میں اضافہ کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح گویا عوام کو ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے۔ ہر دور میں محب وطن عوامی حلقوں کی طرف سے بجٹ آنے سے قبل قابل عمل تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں۔ جن میں سامان تعیش پر پابندی بڑی گاڑیوں‘ مہنگے امپورٹڈ فونز‘ غیرملکی خوراکیں‘ ٹائلز‘ سرامکس وغیرہ پر ڈیوٹیوں کی شرح بڑھانے کی تجاویز خاص طور پر قابل ذکر ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے ان عوامی بجٹ تجاویز کو درخور اعتنا نہ جانا جس کی وجہ یہ تھی کہ بجٹ ساز اداروں میں انہی اشرافیہ کے نمائندے موجود ہوتے تھے جو خود سامان تعیش کے استعمال کے عادی ہوتے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر حکومت نے ہی سامان تعیش اور دیگر غیرضروری اشیاء کی درآمدات پر پابندی عائد کرنے سے گریزکیا۔ درآمدات پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے معیشت زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان آج جس معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس کی ایک بڑی وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کے حجم کا غیرمعمولی طور پر زیادہ ہونا ہے۔ برآمدات اور درآمدات میں موجود تفاوت ہی درحقیقت تجارتی خسارے کا بڑا سبب ہے۔ جس نے آج پوری ملکی اقتصادیات کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ آج ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
مسلم لیگ نون کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو اس وقت جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ معاشی بدحالی ہی ہے جو ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔کیونکہ معاشی طور پر کمزور ملک سیاسی استحکام حاصل نہیں کر سکتا اور سیاسی استحکام کے بغیر ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ اب حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے باہمی مشاورت کے بعد اس معاشی عفریت سے نجات پانے اور حکومت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے متفقہ طور پر جو حکمت عملی تیار کی ہے درآمدات کے حجم کو کم یا محدود کرنے کا فیصلہ اسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔ جس پر عملدرآمد کے نتیجے میں درآمدی بل کم ہوگا اور اس طرح تجارتی خسارے کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹ کے خسارے پربھی قابو پایا جا سکے گا۔ تاہم اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان حکومتی اقدامات کے منفی اثرات عام آدمی کی زندگی پر نہیں پڑنے چاہئیں۔ عام آدمی پہلے ہی بے پناہ اقتصادی مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ معاشی پریشانیوں نے اسے زندہ درگور کرکے رکھ دیا ہے۔ اس پر اب اضافی اور نئے ٹیکسوں کی شکل میں مزید بوجھ ڈالنا ظلم ہوگا۔ جس سے حتی الامکان اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت جو مختصر اور محدود وقت کے لئے اقتدار میں آئی ہے۔ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی جس کی زد عام آدمی پر پڑے اور پھر اس کے ردعمل میں خود حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑے۔