آپ کبھی قبرستان گئے ہیں، یقیناً گئے ہوں گے، کبھی کسی کے جنازے میں شرکت کے لیے، کبھی کسی کو دفنانے کے لیے، کبھی کسی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے، کبھی اپنے بزرگوں کے پاس کچھ وقت گذارنے کے لیے، یہ ممکن نہیں کہ آپ کا کبھی قبرستان کا چکر نہ لگا ہو۔ آپ میں سے جب کبھی کوئی بھی قبرستان جاتا ہے تو وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ کاش میں ان سے باتیں کر سکوں، کاش انہیں سن سکوں یا اپنی سنا سکوں لیکن اس وقت ایسا ممکن نہیں ہوتا، یہ باتیں، قہقہے، تبادلہ خیال، بحث و مباحثہ، اتفاق رائے، اختلاف رائے یہ صرف اس وقت تک ہے جب تک آپ کی سانسیں چل رہی ہیں۔ سانس ختم ہوتے ہیں آواز کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا ہے اور پھر آپ صرف اس کی خواہش ہی کر سکتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔ قبرستان سے آپکو جواب نہیں ملتا، مکمل خاموشی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اس خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور پیغام اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ لوگوں کے چلے جانے کے بعد انہیں یاد کرتے ہیں ان سے گفتگو کی نہ پوری ہونے والی خواہش رکھتے ہیں لیکن جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو ان کی زباں بندی کے منصوبے بناتے رہتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کو برداشت نہیں کرتے، ان کی گفتگو کے مثبت پہلوؤں پر عمل کرنے کے بجائے بولنے والوں کو خاموش کروانے کے منصوبے تیار کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے، ہم کیوں مثبت تنقید کو تعمیر کے پہلو سے دیکھنے کے بجائے اسے اپنی ذات سے جوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے اردگرد یہ مرض اس وقت لاحق ہوتا ہے جب آپ کسی عہدے پر ہوتے ہیں، عہدہ ہی آپ کو ایسے فیصلوں پر سوچنے کے لیے مجبور کرتا ہے، عہدہ ہی آپکو ایسے فیصلوں پر ابھارتا ہے، عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ سامنے کھڑے سب لوگ کم عقل اور نظام کو سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔ جب آپ عہدے پر نہیں ہوتے تو خود بھی ایسے ہی فیصلے کرنے والوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن جب خود "بابو" بنتے ہیں تو جسے غلط کہتے تھے وہی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ان دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کے دور میں ہو رہا ہے۔
کئی روز سے سن رہا ہوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل فرنچائز مالکان اور ٹیموں کے آفیشلز کی میڈیا سے بات چیت کو زیادہ پسند نہیں کر رہا۔ جب بات فرنچائز مالکان یا ان کے آفیشلز کے حوالے سے کی جائے تو یہاں ایک ہی فرنچائز لاہور قلندرز اور ایک ہی آفیشل عاقب جاوید ذہن میں آتے ہیں۔ کیونکہ لاہور قلندرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر ثمین رانا نے چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کے بیانات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح عاقب جاوید کا شمار بھی کرکٹ بورڈ کے بڑے ناقدین میں ہوتا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ دونوں کے بیانات بورڈ حکام کو اچھے نہیں لگتے یوں اب کوشش ہو رہی ہے کہ زبان بندی ہی سب سے بہتر ہے اس لیے کوئی نیا ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے۔ بورڈ کی سطح پر سنجیدگی سے یہ سوچا جا رہا ہے کہ فرنچائز مالکان اور پی ایس ایل ٹیموں کے آفیشلز کے لیے بھی کوئی ایسا ضابطہ اخلاق تیار کرنے کی تیاری ہو رہی ہے جس کے ذریعے اچھے بھلے گوشت پوست کے انسانوں کو پتھر بنا دیا جائے یا پھر روبوٹ بنا دیا جائے، یا تو وہ پتھروں کی طرح جواب دینے کی طاقت سے محروم ہوں یا پھر روبوٹ کی طرح کام کریں۔ صاحب کہیں تو بولیں، صاحب کہیں تو خاموش، صاحب کہیں تو کھڑے ہو جائیں، صاحب کہیں تو بیٹھ جائیں۔ صاحب رات کو دن کہیں تو سب سر ہلائیں، صاحب دن کو رات کہنے لگیں تو سب کہیں جی سر۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ کیا آپ اپنے بزنس پارٹنرز کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں، کیا آپ آزاد انسانوں کو قید کر کے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، کیا تعمیری تنقید آپکو بہتری کا راستہ نہیں دکھاتی، کیا حقائق عوام کے سامنے رکھنا جرم ٹھہرا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ کیا زندہ انسانوں سے بولنے کا حق چھیننا خود مختاری اور حقیقی آزادی سلب کرنے کے مترادف نہیں ہے، کیا کرکٹ بورڈ میں ہر وقت "یس سر" کہنے والوں کی کمی ہے ں آپ کرکٹ بورڈ میں آنے والے ہر دوسرے شخص کو طاقت کے زور پر "یس سر" کہنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ فرض کر لیں کہ وہ خاموش ہو بھی جائیں (جو کہ ذرا مشکل ہے) تو کیا آپ نہیں جانتے کہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024