کیا غضب کا مطالبہ ہے جو قبلہ سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے کیا ہے۔ کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے حکم پر تیل بجلی کے نرخ نہ بڑھائے جائیں۔
قبلہ یہ آقا کا حکم ہے۔ آقا کے حکم کو بجا نہیں لا ویں گے تو جیتے جی نار جہنم کا مزہ پا ویں گے، پھر کہاں جاویںگے۔ مزہ تو خیر پہلے بھی پا رہے ہیں اور چار سال سے پا رہے ہیں اور سال بہ سال یہ مزا بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن اس بار تو وہ بغیر وقت آ پڑا ہے کہ پچھلے سارے مزے پھیکے پڑ جائیں گے ان مزوں کے آگے جو آگے آنے والے ہیں۔
قبلہ سراج الحق کے ممدوح نے چار سال میں لگ بھگ اتنے ہی قرضے کا مقروض ملک کو بنا دیا جو پچھلوں نے 72 سال میں لیا تھا۔ ایسی صورت حال میں بقول میاں محمد بخش ماڑے کے پاس کچھ زور بچا ہی نہیں ہے۔ ممدوح صاحب آئی ایم ایف کا کلّہ ایسی مضبوطی سے گاڑ گئے ہیں کہ کسی سے اکھاڑے نہ اکھڑے۔ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں آئی ایم ایف کی، پیروں میں بیڑیاں آئی ایم ایف کی اور گلے قلاوہ ہے تو وہ بھی آئی ایم ایف کا۔ لب البتہ آزاد ہیں لیکن انہیں ہلانے کی سکت ہی کہاں رہی۔
…………
اگلا مطالبہ ان کا اور بھی خطرناک ہے۔ کہتے ہیں لگژری اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے، جس روز ان کا بیان چھپا، اسی روز ہم نے ایک ویڈیو کلپ میں ایک ’’سابق‘‘ کا پروٹوکول دیکھا۔ پنجاب پولیس، اسلام آباد پولیس، آزاد کشمیر اور گلگت پولیس ، پختونخواہ پولیس، رینجرز اور ایف سی کی گاڑیاں اور ان گنت ہتھیار بند جوان نیز ایس جی جی کے کمانڈوز ان کے آگے پیچھے تھے اور داراو سکندر کے جاہ و جلال کو شرمسار کرتے وہ جلسہ عام سے خطاب کیلئے تشریف لا رہے تھے۔
قبلہ آپ کا یہ مطالبہ ’’قومی مفاد‘‘ کے خلاف ہے۔ ایک نظریہ پاکستان وہ تھا جو اقبال اور قائد نے دیا، دوسرا وہ ہے جو ان کے جانے کے بعد آیا۔ آج کل یہی دوسرا نظریہ پاکستان ہی ہمارا قومی کلچر ہے، سکّہ رائج الوقت ہے ، یہی وقت کا قانون ہے۔
ٹوئٹر پر ایک ویڈیو چل رہی ہے، ایک صاحب اپنے کنالوں پر محیط لگ بھگ 50 کروڑ کے محل کے سامنے کھڑا ہو کے ا یک معترض یا سوالی معمولی اخبار نویس کو بتا رہے ہیں کہ حیران کیوں ہوتے ہو، میری آمدنی اتنی ہے کہ ہر دو ماہ بعد میں ایسا نیا محل کھڑا کر سکتا ہوں۔
واللہ، پاکستان میں نظریہ پاکستان دوئم کے علمبرداروں پر ھن کیسے برستا ہے، دوسری طرف پسنے والے اکثریتی گھن کا عالم یہ ہے کہ مبلغ پچاس روپے کا نوٹ دیکھ کر ان کی آنکھوں کے بجھتے دئیے روشن ہونے لگتے ہیں۔
…………
لگژری وی آئی پی کلچر کا ذکر آیا تو کل کا فیصلہ یاد آیا جو مبینہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ بہت ساری لگژری آ ئٹمز کی درآمدات پر پابندی لگا دی ہے۔ کہاہے اس سے اس سے امپورٹ بل کم ہو گا، ڈالر کی قیمت مزید اوپر جانے سے رک جائے گی۔
یعنی یہ تو طے ہے نیچے نہیں جائے گی۔ اب کوشش ہے تو یہ کہ مزید اوپر نہ جائے یا جائے بھی تو کہیں زیادہ نہ جائے۔ ایوب خاں نے پاکستان کو ڈالر کی آغوش میں دیا تھا، وہی آغوش اب پتلون کی پچھلی جیب بن گئی ہے کہ ہلتے بنے نہ سانس لیتے بنے۔
…………
اپریل کے شروع میں فیصلہ آیا تھاکہ منحرف ارکان ووٹ ڈالیں گے اور ان کے ووٹ گنے بھی جائیں گے۔ اب مئی کے تیسرے ہفتے میں انہی کی طرف سے یہ فیصلہ آیا کہ منحرف ارکان ووٹ ڈال ہی نہیں سکتے، گنے جانے کا تو سوال ہی کیا۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ حمزہ میاں کی وزارت اعلیٰ اب گئی کہ گئی۔ چلئے ، ایک بات فائدے کی تو ہوئی۔ وہ جو کہا جا رہا تھا کہ آزادی مارچ کو پنجاب میں روک دیا جائے گا، وہ خطرہ تو ٹلا۔ اب تو ہم…لے کے رہیں گے آزادی!
……………
شیخ رشید کا وہ بیان خاصا زیر بحث ہے جس میں جناب نے فرمایا کہ ہمارا ملبہ اس حکومت پر گر گیا، وہ اس کے نیچے دب کر برباد ہو جائے گی۔ شیخ جی نے یہ بات بغلیں بجانے کے انداز میں کی۔
مطلب کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایں ہمہ آوردہ نشت کے معنے میں ہے اور شیخ جی ، آپ نے گویا خود اعتراف کر لیا۔
اب یہ نئی مبینہ حکومت کی بربادی کی خوشخبری تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ یہ وہ ’’خراج تحسین ‘‘ ہے جو شیخ جی نے اپنے قائد عمران کو پیش کیا ہے۔
ویسے شیخ جی، اس ’’ملبے‘‘ میں آپ کا حصہ کتنا ہے؟
بقدر جثہّ تو ہو گا ہی!
…………
ایک خبر ہے کہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب کے سابق وسیم اکرم پلس عثمان بزدار جاتے ہوئے سرکاری گاڑیاں بھی ساتھ لے گئے۔ ایک اور خبر میں ’’الزام‘‘ لگایا گیا ہے کہ عثمان بزدار کے اثاثوں میں ساڑھے تین سال کے دوران ساڑھے دس ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
ساڑھے دس ارب…بزدار کے گھر بجلی نہیں تھی۔ پتہ نہیں اب لگوا لی کہ نہیں؟
………
گوجرانوالہ کے جلسے میں عمران خان پر ان کے ایک جاں نثار نے ڈالر نچھاور کئے۔
غلطی کر دی۔ انہیں ’’روبل‘‘ نچھاور کرنے چاہئیں تھے۔ آخر ڈالر کے دیش سے تو ہمیں آزادی حاصل کرنی ہے۔
……………
کل کے کالم میں یوکرائن کے حوالے سے ایک فقرہ مبہم رہ گیا ۔ یوکرائن کے بحران سے یورپ میں گندم کی کمی اس لئے ہوئی کہ یوکرائن جو یورپ کا اناج گھر ہے، اناج برآمد کرنے کے قابل نہیں رہا۔
روس کی کارپٹ بمباری سے جہاں کھیت کھلیان جل گئے ہیں اجناس کی نقل و حمل کا سارا نظام بھی برباد ہو گیا۔
…………
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024