بخاری شریف اور مسلم شریف کی متفق حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لئے عرض کیا : یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایمان کے بارے میں فرمائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
ترجمہ۔ (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ۔ (اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے۔ اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے ایسی کفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی پیدا ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کیخلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے زریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اس پر فرض کی ہیں بلکہ میرا بندہ برابر نوافل کے زریعے میرا قْرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اْس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اْسکی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اْسکا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اْسے عطاء فرماتا ہوں اور اگر وہ میرے پناہ پکڑے تو ضرور میں اْسے پناہ دیتا ہوں اور کِسی کام میں مجھے تردّد نہیں ہوتا جس کو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو بْرا سمجھنے میں کیونکہ میں اْسکے اس بْرا سمجھنے کو بْرا سمجھتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب تم مؤذن سے اذان سنو تو وہی کلمات کہو جو وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر میرے لئے جنت میں ’’وسیلہ‘‘ کی دعا مانگو، کیونکہ وہ جنت کا ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں گا، اور جو شخص میرے لئے اس مقام کی دعا مانگے گا اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم واپس چلے جاؤ واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج پر چلے جاؤ۔
حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون؟ فرمایا کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دو ہمسائے ہیں۔ پس میں ان میں سے کس کیلئے تحفہ بھیجا کروں؟ فرمایا کہ ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ جس کسی نے ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی فصل بوئی جب تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق سے کوئی ایک بھی فائدہ اٹھاتا رہے گا سے ثواب ملتا رہے گا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی سائل کو انکار نہیں کرتے تھے۔
احادیث لکھتے وقت نہایت احتیاط کی گئی ہے کسی بھی غلطی کی صورت میں معافی کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024