مرشد مجید نظامی نے عمر بھر جمہوری استحکام کے لئے جدو جہد کی۔ جمہوریت تو جیسی تیسی لولی لنگڑی ہمیں نصیب ہو چکی۔ ہم جو ان کو ماننے والے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس جمہوریت کے استحکام کے لئے کوشاں رہیں اور حقیقی جمہوریت جو اسلام کی نظریاتی اساس کے عین مطابق ہو، اسے ملک میں روشناس کرائیں۔ یہ کام مشکل نہیں ، نا ممکن بھی نہیں، ہم اصولوں اور نظریات پر ثابت قدم رہیں تو اس مقصد کی تکمیل ہمارے ہاتھوں ہی ہو جائے گی ۔
مگر مرشد مجید نظامی کا جو ایجنڈا ادھورا رہ گیا ہے وہ ہے آزادی کشمیر کا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کی رو سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا مگر انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ نے ریاست جموں و کشمیر پر قابض ہونے کے لئے ریڈ کلف ایوارڈ میں ڈنڈی ماری اور پٹھانکوٹ کا علاقہ بھارت کو دان کر دیا جس کی وجہ سے بھارت کے لئے کشمیر کو ہڑپ کرناا ٓسان ہو گیا، پاکستان نے کوشش تو کی کہ وہ کشمیر کے خلاف بھارتی جارحیت کو ناکام بنائے مگر بھارتی وزیر اعظم نے ایک شکست فاش دیکھتے ہوئے بھاگم بھاگ سلامتی کونسل سے سیز فائر کی قرارداد منظور کروا لی۔
پاکستان کی سفارتی کامیابی یہ تھی کہ ا س قرارداد میں کشمیر کا مسئلہ طے کر نے کے لئے استصواب کی شرط رکھو الی۔ پنڈت نہرو نے اس قرارداد پر دستخط کئے مگر بھارتی لالہ بعد میں اس پر عمل درآمد سے مکرتا ہی چلا گیا۔ جس کی وجہ سے پینسٹھ میں پاکستان کو پھر ایک فوجی کاروائی کرنا پڑی۔ جب ہماری افواج چھب جوڑیاں کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں تو بھارت نے عیاری سے پاکستان کی بین ا لاقوامی سرحدوں پر جارحانہ حملہ کر دیا مگر ہماری بہادر افواج نے قوم کے بھر پور تعاون سے بھارت کو ہر محاذ پر آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ایک بار پھر بھارت ہی سلامتی کونسل میں گیا اور سیز فائر کی بھیک مانگنے لگا۔
یوں کشمیر کامسئلہ ایک بار پھر طے ہوتے ہوتے رہ گیا۔
جب تک مرشد مجید نظامی حیات تھے تو انہوںنے کشمیر کے لئے جدو جہد جاری رکھی ، ایک بار تو وہ اپنے خطاب میں اس قدر جذباتی ہو گئے کہ انہوںنے پیش کش کر دی کہ انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں کی بھارتی فوجی چھائونی پر داغ دیا جائے، مرشد مجید نظامی کی یہ پیش کش اس قدر خون گرما دینے والی تھی کہ حاضرین میں موجود چند خواتین نے بھی کہا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس فضائی حملے کے لئے پیش کرتی ہیں۔ جناب مجید نظامی اس سے بڑھ کر اور کیا کر سکتے تھے، ایک جان عزیز ہی ان کے پاس تھی اس کی قربانی بھی دینے کے لئے وہ تیار ہو گئے۔
میں وہ دن نہیں بھولتا جب چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل مشرف نے پاکستان بھر کے ایڈیٹروں کو کشمیر پر بریفنگ کے لئے ایوا ن صدر مدعو کیا تو جنر ل مشرف نے کہا کہ وہ دنیا کے دبائو میں آ کر آئندہ کے لئے کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں تو مرشد نظامی نے کہا کہ آپ کو یہ فیصلہ کرنے کاا ختیار کس نے دیا۔ ہم اسے نہیں مانتے۔ کشمیری بھی اسے نہیں مانیں گے اور وہ آزادی کی جدو جہد جاری رکھنے کے لئے ہماری بیساکھیوں کے محتاج بھی نہیں ہیں۔ یہ سن کر جنرل مشرف کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
جنرل مشرف تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گیا ، مرشد مجید نظامی کہکشائوں میں روشنی بکھیر رہے ہیں اور کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تابندگی بخش رہے ہیں۔ہم جو ان کے نام لیوا اور پیرو کار چند ایک باقی ہیں ۔ہمارا فرض ہے کہ ہم واضح کر دیں کہ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ خود کشمیریوں کا حق ہے۔ ہم اس پر کوئی سودے بازی نہیں مانتے۔ نہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دہشت گردی مانتے ہیں۔
ہمیں قائد اعظم کے ا س فرمان سے تقویت ملتی ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ ہمیں بھٹو کے اس قول سے تقویت ملتی ہے کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔
ہمیںمعلوم ہے کہ اقوام متحدہ میں بھٹو نے تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ حق خودا رادیت کا اصول اقوام متحدہ کے منشور میں شامل ہے۔ فرانس نے الجزائر کو یہ حق دیا۔ دیگر اقوام کو بھی یہ حق مل رہا ہے مگر سلامتی کونسل کی ڈھاٹائی کی وجہ سے کشمیری اس حق سے محروم ہیں، بھٹو نے دھمکی دی تھی کہ اگر سلامتی کونسل کشمیر کا مسئلہ منصفانہ طور پر حل کرانے میں ناکام ہوئی تو پاکستان مجبور ہو کر اقوام متحدہ چھوڑ دے گا۔ اور دنیا کے ایک تمام اسلامی ممالک بھی اس ادارے سے الگ ہو جائیں گے ۔
اس سے بھی بڑی دھمکی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے خطاب میں دی تھی کہ کشمیر پر بھارتی ظلم و ستم نہ روکا گیا اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کی رو سے کشمیریوں کو حق خودارادیت نہ دیا گیا تو پاک بھارت ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی جو بر صغیر کی حدوں سے ا ٓگے تباہی مچائے گی۔
یوں مرشد مجید نظامی کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کوششیں جاری ہیں ۔ ہم اپنی زندگی میں کشمیرکو آزاد ہوتے دیکھیںگے اور مرشد نظامی کے سامنے سر خرو ہوں گے ۔ انشا اللہ!
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024