قومی معاملات میں مجید نظامی کا جاندار کردار آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے

لیلۃ القدر کے مہمان معمار نوائے وقت مجید نظامی کی 6ویں برسی اور مودی کی بڑھکوں کا ٹھوس جواب دینے کی ضرورت
امام صحافت مجید نظامی کی آج قمری کیلنڈر کے مطابق 6ویں برسی ہے۔ قدرت کاملہ نے اس دارِ فانی سے انکی رخصتی کیلئے رحمتوں اور برکتوں والے مہینے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کومنتخب کیا جس کی فضیلت ہمارے لئے اس لئے بھی زیادہ ہے کہ 27ویں رمضان المبارک کو ہی اس ملک خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اسی سعد گھڑی مجید نظامی کی رحلت پاکستان کے ساتھ انکی اٹوٹ محبت کا بھی بین ثبوت ہے۔ مجید نظامی ملک کی بقاء و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کیلئے دردِدل رکھنے والی وہ شخصیت تھے جو وطن عزیز کیخلاف بھارتی سازشوں اور چالبازیوں کا مکمل ادراک اور آگاہی رکھتے تھے اور ایک ماہر نباض کی طرح ملک کو درپیش اصل عوارض کا کھوج لگا کر ان کا شافی علاج تجویز کیا کرتے تھے اور بطور خاص بھارتی چالبازیوں سے خبردار رہنے اور اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے جو اس امر کے قائل تھے کہ بھارت ہمارے لئے ایک موذی سانپ ہے جسے دودھ پلا کر بھی ہم اسکے زہریلے ڈنک سے نہیں بچ سکتے اس لئے سانپ کا سر کچلنا ہی ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہماری بہترین حکمت عملی ہونی چاہیے۔ وہ اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیخلاف امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو شیطانی اتحاد ثلاثہ سے تعبیر کیا کرتے تھے اور اسی تناظر میں کہا کرتے تھے کہ ہم نے ایٹم بم شوکیس میں سجانے کیلئے تیار نہیں کیا۔وہ ہندو بنیاء سے ملک و ملت کیلئے کبھی خیر کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ اگر متعصب ہندوئوں کے نمائندے نریندر مودی انکی حیات میں برسراقتدار آتے تو مجید نظامی ان کیلئے ننگی تلوار بنے نظر آتے۔ مودی نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں پاکستان کے ساتھ اعلانیہ دشمنی پر مبنی جو پالیسیاں اپنائے رکھیں اور سرحدی کشیدگی بڑھا کر عملاً جنگ کا ماحول طاری کئے رکھااور اب بھی مودی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت جس طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر نظر بد گاڑھے ہوئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہاء کرتے ہوئے کشمیریوں کو 290 روز سے محصور کیا ہوا ہے‘ مجید نظامی حیات ہوتے تو حکومت کو ہندو انتہاء پسند مودی کا غرور توڑنے کی ٹھوس اور اٹل حکمت عملی طے کرنے کی تلقین کرتے۔
مجید نظامی کا شمار بلاشبہ ذاتِ باری تعالیٰ کے محبوب بندوں اور نبی ٔ آخرالزمان محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق میں ہوتا تھا‘ جنہوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ملک خداداد کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی نگہبانی اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں‘ آدرشوں اور انکے زریں اصولوں کے مطابق یہاں جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے وقف کئے رکھا۔ انہوں نے اپنے نفع نقصان کی پرواہ کی نہ جرنیلی اور سول آمروں کی ترغیب و تخویف کو کبھی خاطر میں لائے۔ وہ اپنی ذات میں خوبیوں ہی خوبیوں اور صفات ہی صفات کا مجموعہ تھے جو برملا اس امر کا اظہار و اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے جانبدار ہیں اور اس جانبداری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینگے۔ انکے سچے اور کھرے پاکستانی ہونے کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا دشمن اول بھارت بھی انہیں اپنا دشمن اول گردانتا تھا جبکہ وہ نظریہ پاکستان اور ملک کی سالمیت کیخلاف کسی بھی فورم پر کوئی بات برداشت کرتے تھے نہ اس پر کبھی مفاہمت پر آمادہ ہوتے تھے۔ وہ اسی ناطے نوائے وقت گروپ کے ذریعے بھارت نواز حکمرانوں اور دوسرے حلقوں سے ٹکر مول لیتے اور انکی اصلاح و خبرگیری کا اہتمام کرتے رہے۔ انہوں نے ہمہ وقت کشمیر کاز کو سپورٹ کیا اور کالاباغ ڈیم کی وکالت کی جس کیلئے انہوں نے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر قومی ریفرنڈم کا بھی اہتمام کیا جس میں تحفظ و بقاء اور استحکام پاکستان کیلئے انکی دردمندی ہی جھلکتی نظر آتی تھی۔ وہ ملک کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی و قومی سلامتی کے معاملہ میں کسی حکمران کے پائے استقلال میں لغزش پیدا ہوتی محسوس کرتے تو ببانگ دہل اسے للکارتے اور ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرتے۔ اس تناظر میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد جوابی ایٹمی دھماکوں کیلئے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو گومگو میں دیکھ کر مجید نظامی نے انہیں اپنے اس بے مثال فقرے کے ذریعے للکارا کہ میاں صاحب آپ دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘ میں آپکا دھماکہ کردوں گا۔ بعینہ وہ آج زندہ ہوتے تو دنیا پر ٹوٹی ہوئی کرونا وائرس کی افتاد سے عہدہ برأ ہونے کیلئے حکومت کو گومگو میں دیکھ کر اسے جامع اور اٹل پالیسی طے کرنے کی تلقین کرتے۔مجید نظامی قومی پالیسیوں میں گومگو کے ہرگز قائل نہیں تھے اور ایسے معاملات میں حکومتوں کی بروقت خبرگیری کیا کرتے تھے۔ انہوں نے دل کے تین بائی پاس اپریشن کرانے کے باوجود جس جواں ہمتی اور بلند عزم کے ساتھ آبرومندی والی اپنی زندگی کے 86 برس گزارے جس میں انکی صحافت کے 72 اور ادارت کے 52 سال بھی شامل ہیں‘ وہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے پیشہ صحافت میں جہاں اپنے برادر بزرگ حمید نظامی کے روشن اصولوں کی آبیاری کی وہیں بامقصد اور اصولی صحافت کے تحفظ و فروغ میں ثابت قدمی کی نئی مثالیں قائم کرکے امامِ صحافت اور آبروئے صحافت کا درجہ بھی حاصل کیا۔
انہوں نے اپنی عمر فانی کے آخری لمحے تک اپنی ذات اور نوائے وقت کے خاندان کے ساتھ کیا گیا عہد پوری ثابت قدمی کے ساتھ نبھایا اور پیشہ صحافت کو پیشۂ پیغمبری ثابت کرکے دکھایا۔ انکے برادر بزرگ حمید نظامی نے قائداعظم کے فرمان پر 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی متعصب ہندو پریس کا مقابلہ کرنے کیلئے پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ کی شکل میں جس بااصول و باوقار صحافت کا آغاز کیا تھا‘ ایوبی مارشل لاء میں انکے انتقال کے بعد محترم مجید نظامی نے اسکی باگ ڈور سنبھال کر اسے مرحوم حمید نظامی کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ ایک تناور درخت بنا کر میدان صحافت میں جلوہ افروز کیا۔ ایک بار ضیاء الحق نے انہیں اپنے ہمراہ بھارت لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو جناب مجید نظامی نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ ٹینک پر چڑھ کر بھارت جائیں تو میں تیار ہوں۔ جناب مجید نظامی کے ہاتھوں ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرنیوالی یہ صحافتی امپائر آج قومی صحافت کا بھرم بن چکی ہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں انہوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کی پاسداری کی۔ وہ پوری دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر کشمیر ہمیں کبھی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کریگا چنانچہ ہمیں اپنی شہ رگ کشمیر کو بزور طاقت ہی دشمن کے خونیں پنجے سے چھڑانا ہو گا۔اپنے بے پایاں جذبے کا اظہار وہ اپنے اس یادگار فقرے کے ذریعے کیا کرتے تھے کہ ’’بے شک مجھے توپ کے آگے باندھ کر بھارت پر چلا دو‘ ہمیں کشمیر کے حصول کیلئے بھارت سے نبردآزما ہونا ہی پڑیگا۔‘‘ آج مودی کی جنونیت نے دونوں ایٹمی ملکوں کو عملاً ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے جن کے مابین جنگ پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ مجید نظامی کو بھی اس کا پورا ادراک تھا اس لئے وہ دشمن کے مقابل ہمہ وقت اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے متعلق گزشتہ پانچ اگست کے اقدام کے بعد جب مودی سرکارنے ہذیانی کیفیت میں یہ بڑ ماری کہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا تو مجید نظامی کا یہ فلسفہ بھی ایک زندہ حقیقت بنا نظر آیا کہ کشمیر مذاکرات سے نہیں‘ زور بازو سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مجید نظامی کی جمہوریت کے ساتھ لازوال وابستگی تھی۔ وہ ہمیشہ آمریت سے برسرپیکار رہے۔ وہ مروجہ جمہوریت کو مثالی نہیں سمجھتے تھے تاہم یقین رکھتے تھے کہ بری سے بری جمہوریت بھی اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہے۔
مجید نظامی سیاست میں تحمل برداشت، رواداری اور وضعداری کو ملحوظ خاطر رکھنے کے قائل تھے اور باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو باور کرایا کرتے تھے کہ انکی اس روش کے باعث ہی اقتدار کی بوٹی طالع آزمائوں کے ہاتھ آتی ہے اس لئے حالات اس نہج پرنہ لے جائیں کہ طالع آزمائوں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کا پھر جواز مل سکے۔
آج 27؍ رمضان المبارک کو نوائے وقت گروپ خداوند کریم سے امام صحافت مجید نظامی کیلئے بلندیٔ درجات کی دعا کے ساتھ ساتھ قارئین نوائے وقت اور قوم سے اس عہد کا بھی اعادہ کررہا ہے کہ معمار نوائے وقت مجید نظامی کے اصولی صحافت کے مشن پر کاربند رہ کر انکی جلائی شمع کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیا جائیگااور اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کیلئے ان کا مشن جاری و ساری رکھا جائیگا۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔