لوگ کوشش کرتے ہیں کہ سنجیدہ اور حساس معاملات پر بات کرتے ہوئے دامن بچا کر نکل جائیں لیکن بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں انسان کو دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ہر معاملے میں گول مول بات کرنا ایمان اور غیرت کے منافی ہے۔ جہاں بھی ایسا مسئلہ درپیش ہو خطرات اور نقصان کو بھلا کر واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ایسے نازک معاملات مذہبی بھی ہوتے ہیں جبکہ سماجی، نظریاتی اور دفاعی بھی ہوتے ہیں۔ مذہبی معاملات میں مسلکی اختلافات میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے درمیانی راستہ نکالنے اور اتحاد کی طرف جانا چاہیے لیکن ختم نبوت جیسے نازک، حساس اور دلوں کے قریب معاملے پر دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے جو بھی شخص عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھتے ہوئے انتشار کا باعث بنتا ہے اس کا تحریری فیصلہ آئین پاکستان نے کر دیا ہے ایسے افراد قرآن کے منکر ہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر ہیں سو ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کسی بھی درمیانی راستے کے بجائے سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور وہ راستہ ہے کہ جو بھی نبی آخر الزماں کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کرے گا عہدے مرتبے اور حیثیت سے قطع نظر اس کی مخالفت کی جائے گی۔ جو بھی آئین پاکستان کے مطابق ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی بات کرے گا اسے بے نقاب کیا جائے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت کے منکروں کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون کے دفاع کے لیے جان مال اولاد سب قربان کیا جا سکتا ہے۔ سو ایسے معاملات میں دلائل ڈھونڈنے کے بجائے غیرت ایمانی کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہوئے واضح موقف اختیار کرنا ہی نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت اور غیرت ایمانی کا تقاضا ہے۔
بالکل اسی طرح ملکی دفاع کی بات کرتے ہوئے پوچھا جائے کہ آپ سیاسی قوتوں پر اعتماد کریں گے یا دفاعی اداروں پر تو یہاں بھی ہمارے رائے بالکل واضح ہے کہ ملکی دفاع کے معاملے سیاسی قوتوں کے بجائے دفاعی اداروں کا ساتھ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بھی موقف واضح ہے کہ دفاعی ادارے بالخصوص افواج پاکستان ہی ملکی دفاع اور سلامتی کی ذمہ دار ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد ضرور موجود ہیں جو اہم فیصلوں کے وقت مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ملکی دفاع کو اہمیت دینے کے بجائے دشمن ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ ایسے افراد بھی موجود ہیں جو پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے ایسی قانون سازی میں مصروف رہتے ہیں جس سے دفاعی اداروں کا کردار محدود کیا جا سکے یا ان کی فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوا جا سکے۔ ایسے افراد موجود ہیں جو ووٹ پاکستان کے عوام سے لیتے ہیںَ، ملک سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن ان کے اقدامات اور فیصلے ملک دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو نظام کا حصہ بن کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ناکام بھی حساس اور دفاعی ادارے ہی بناتے ہیں۔ اس پس منظر اور حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی دفاع کے معاملے میں ہمارا اولین انتخاب ہمیشہ سے دفاعی ادارے ہی رہے ہیں۔
یہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر جو مسائل ہیں یہ بھی انہی سیاست دانوں کے پیدا کردہ ہیں جو ملک سے زیادہ ملک دشمنوں کے وفادار ہیں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا مقصد افواج پاکستان کو متنازع بنانا اور ان کے کردار کو محدود کرنا ہے تاکہ ملک دشمنوں کی مدد کی جا سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سبھی اس منفی سوچ کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے دونوں جماعتوں میں فیصلہ کرنے کی قوت اور اختیار رکھنے والوں کی سوچ اور اقدامات افواج پاکستان کے خلاف ہی ہیں۔ گھناؤنا کھیل کھیلنے کے بعد عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کاش کہ ان کی حقیقت عوام تک پہنچے اور ووٹرز کو اندازہ ہو کہ رہبروں نے ملک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ افواج پاکستان کے کردار کو کم یا محدود کرنے یا فوج کو ارادتاً کمزور کرنے کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے۔ ہر دور میں مضبوط دفاع ہی ریاست کی سب سے بڑی طاقت رہا ہے پھر پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کو فوج کا کردار اور طاقت سے پریشانی کیوں ہوتی ہے۔ قارئین کو یہ ضرور سوچنا چاہیے۔ ہم جمہوری نظام اور جمہوری قوتوں کے حامی ہیں لیکن ملکی دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کر سکتے۔
جہاں تک اٹھارویں ترمیم کا تعلق ہے اس میں تعلیم اور صحت کو بہرحال وفاق کے پاس رہنا چاہیے جب صوبوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وفاق کو بھی حقوق ملنے چاہئیں۔ تعلیم اور صحت بنیادی مسائل ہیں اور یہاں تمام شہرویں کا حق ہے کہ انہیں صحت اور تعلیم کی یکساں سہولیات میسر آئیں۔ ایک جیسا نظام تعلیم، ایک ہی نصاب پورے ملک میں ہونا چاہیے اور یہ کام وفاق کی نگرانی اور سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں وفاق کے پاس بھی کچھ بچنا چاہیے۔ صوبائی خود مختاری کا ہونا ضروری ہے۔ صوبوں کو اختیارات ملنے چاہئیںلیکن اس کے لیے حدود کا تعین بھی ضروری ہے۔ آئینی ترامیم کی آڑ میں یا آئین کا سہارا لے کر کسی کو بھی ملک کے دفاعی اداروں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حالات و واقعات اور شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ اس بحث کے پس منظر اور شور میں گل کوئی ہور اے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024