اس خدا کی قسم جس نے عمران خان کو تبدیلی کا موقع دیا ہے ۔ تبدیلی لانا اکیلے عمران خان کے بس کی بات نہیں۔ ملک میں تبدیلی ہم سب میں تبدیلی آنے کے بعد آئیگی۔ ایمنسٹی سکیم اور آئی ایم ایف سے قرضہ کالم نگار کو بھی اچھا نہیں لگ رہا۔آئی ایم ایف والوں کی شرائط آبرو مندانہ نہیںاور ایمنسٹی سکیم سرے سے منصفانہ نہیں۔ غیر قانونی دولت تھوڑی سی کٹوتی سے قانونی قرار دے دی جائے ، اسے آپ ٹیٹھ پنجابی زبان میں ’’ہارے دا نیاں‘‘کہہ سکتے ہیںکہ کسی طرح ہی دولت اپنی ملکی معیشت میں داخل ہو جائے۔ یقینا یہ سب کچھ عمران خان کو بھی اچھا نہیں لگ رہا ہوگا۔لیکن کیا کیا جائے کہ عمران خا ن کو اپنے پانچ سالہ اقتدار میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کے دس برسوں میں لئے گئے 58ارب ڈالر میں سے 38ارب ڈالر واپس بھی کرنے ہیں۔ ڈالر روز مہنگا ہو رہا ہے ۔ کیا یہ 38ارب ڈالر ، 38ارب ڈالر ہی رہے ہیں؟ ہمارا روپیہ ایشیاء کی کمزور ترین کرنسی ہو چکا ہے ۔ افغانستان ، بنگلہ دیش اور نیپال کی کرنسی بھی ہم سے باوقار ہے ۔ کیا ان قرضوں کی واپسی سے انکار کر دیا جائے ؟ہمارے تحریک لبیک یا رسول اللہ والے علامہ خادم حسین رضوی ایک انکار سے ملتا جلتا حل بتاتے ہیں۔ شاید وہ بھولے بادشاہ نہیں جانتے کہ یہ قرض گارنٹی کے بغیر نہیں لئے گئے ۔ مہاجن بہت سیانا ہوتا ہے ۔ ان قرضوں کے عوض ہمارے بہت سے اثاثے رہن پڑے ہیں۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔کراچی کا جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ ، پشاور اسلام آباد موٹر وے ۔فیصل آباد پنڈی بھٹیاں موٹر وے ۔ اسلام آباد لاہور موٹر وے ۔تمام ہائی ویز ۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے تمام اثاثے ۔عمران خان یقینا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہتے ہونگے ۔لیکن اگر واجب الادا قرضوں کی بروقت ادائیگی کا بندوبست ممکن نہ ہو سکا توآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ان رہن شدہ اثاثوں کو قرق کر سکتے ہیں۔ ایک افطار پارٹی میں ایک نیک دل صنعتکار وہاں موجود بڑے افسروں کو رزق حلال کی تلقین کرنے لگے ۔ انہیں رزق حلال کی فضیلت بتانے کے بعد وہ سمجھانے پر اتر آئے کہ انہیں اوپر والوں کے ناجائز احکامات کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے کہ رازق صرف خدا ہے۔ یہ لوگ اپنے کاروبار میں ٹیکس کے معاملات ٹریفک کے قوانین کی طرح ’’بے ضرر‘‘سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی گناہ نہیں سمجھتے ۔ گھر سے باوضو ہو کر ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد پہنچ جائیں تو ان کا گھر سے کیا ہوا وضو برقرار رہتا ہے ۔ میرے حضورؐ نے راشی اور مرتشی کو ایک پلڑے میں رکھا ہے ۔ لیکن یہ لوگ صرف راشی کو گنہگار سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک مرتشی بیچارہ مجبور محض بلکہ مظلوم ہوتا ہے ۔ حالانکہ رشوت کی ڈیل میں زیادہ فائدے میں راشی نہیں مرتشی رہتا ہے ۔ یہ’’ نیک دل‘‘لوگ سود کو حرام سمجھتے ہیں لیکن بینکوں سے اپنے اکائونٹس پر سود لینا بھولتے نہیں۔ وہ یہ سود افسران بالا کو رشوت دینے میں استعمال کرتے ہیں۔ اسطرح ان کا اپنا دھن پاکیزہ ہی رہتا ہے ۔ٹیکس ۔۔۔ ٹیکس۔۔۔ ٹیکس۔۔۔ ٹیکس۔ ہم ٹیکس جب تک پورا نہیں دینگے، ملک کیسے چلے گا؟ گوجرانوالہ میں پچھلے بلدیاتی الیکشن میں چند ووٹوں کے معاوضہ میں شہر کی ایک اہم سیاسی شخصیت کو شیخوپورہ روڈ پر مضحکہ خیز ارزاں نرخوں پر سرکاری کمرشل اراضی لیز پر دی گئی تھی ۔ گوجرانوالہ کارپوریشن کی ملکیتی دکانوں کا ریکارڈ ہی نہیں مل رہا۔ یہ تمام دکانیں ایک آدھ ہزار روپیہ ماہوار کرایہ پر چڑھی ہوئی ہیں جبکہ ان میں سے کسی دکان کا کرایہ مارکیٹ میں ایک لاکھ روپے ماہوار سے کم نہیں۔ لاہور میں ایک عرصہ سے 22 پٹرول پمپ صرف 3,86,711/-روپے سالانہ کرایہ پر چڑھے ہوئے تھے ۔ 12اپریل 2019کو ڈپٹی کمشنر لاہور نے انہیں 40,34,50,000/- روپے سالانہ کرایہ پر نئے کرایہ داروں کو دیئے ہیں۔ جب تک ایسی سرکاری داد و ہش ختم نہیں ہوگی، بھوکوں تک روٹی کا لقمہ نہیں پہنچے گا۔ پھر ہر شہری کو اپنے حقوق کیلئے جاگنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری پارلیمنٹ نے چپکے سے کاغذات نامزدگی میں سے وہ شقیں نکال لیں جن سے امیدوار سے دوہری شخصیت ، پاسپورٹ کی تعداد ، این ٹی این نمبر ،گذشتہ تین سالوں کے ٹیکس کا ریکارڈ ، پیشہ، زیر کفالت افراد اور اثاثوں کی بابت سوال کیا جا سکتا تھا۔ اللہ بھلا کرے کالم نگار حبیب اکرم کا ،وہ اس قانون کے خلاف عدالت میں پہنچ گئے۔ پھر جسٹس عائشہ ملک کے فیصلہ نے 2018 کے عالم الیکشن میں شفافیت کی بنیاد رکھ دی۔ لیکن یہ جناب حبیب اکرم کی درخواست کے بغیر جسٹس عائشہ ملک کیلئے اس قانون کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہمیں ہر دم جاگنے کی ضرورت ہے لیکن ہم غافل سوئے ہوئے ہیں۔ سوئے ہوئے حمیدہ شاہین کا نوحہ سن لیںکہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
خوش گمان لوگوں کو
ایک دن خبر ہوگی
جس زمیں پہ رہتے ہیں
وہ زمیں کسی کی ہے
جس کو گھر سمجھتے ہیں
وہ مکاں کسی کا ہے
منزلیں کسی کی ہیں
کارواں کسی کا ہے
کچھ نہیں یہاں ان کا
صرف بے نشانی ہے
اور نشاں۔۔۔۔کسی کا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024