وطن عزیز کی ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو تمام تر ناکامیوں ا ور پسپائی کی کیفیات کی پشت پر وہ عناصر واضح نظر آتے ہیں جو مملکت کے اسلامی تشخص ،یکجہتی اور پاکستانی قومیت یعنی پاکستانیت کو قبول کرنے پر آج بھی آمادہ نہیں۔ وہ وفاق پاکستان کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ انگریز کی تربیت یافتہ افسر شاہی ہے جس نے انگریزی کو ہتھیار بنا کر پوری قوم کو محکوم کر رکھا ہے ۔جس کے نتیجے میں پوری قوم شدید احساس کمتری کا شکار ہے ۔ یہ افسر شاہی خود کو انگریزوں کا غلام اور وارث تصور کرتے ہوئے بائیس کروڑ عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے پر ڈٹی ہوئی ہے ۔حالانکہ اپنی قومی زبان سے محبت ہر قوم کی فطرت ہے ۔اپنی زبان چھوڑ کر غیروں کی زبان اختیار کرنا قومی غیرت کے منافی ہے کیونکہ ترقی کی اساس کی بنیاد علم ہے اور عملی ترقی اپنی ہی زبان میں ممکن ہے ۔ قومی زبان کو سرکاری عدالتی اور تعلیمی زبان کی حیثیت نہ دینا قومی امنگوں آئین پاکستان اور تحریک پاکستان کی بنیادی اساس سے بیوفائی اور غداری سے کم نہیں ۔ جس کے باعث قوم طبقاتی اور فکری انتشار میں مبتلا ہے ۔ ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے متعدد مرتبہ نفاز قومی زبان کی تحریکیں چلائی گئیں ۔ عدالتوں سے رجوع کیا گیا ۔8 ستمبر 2015کو عدالت عظمی پاکستان نے نفاز قومی زبان کے حوالے سے فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا حکم بھی صادر فرمایا۔عدالت عظمی کے اس فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے 2017ء میں عدالت عالیہ لاہور سے معروف قانون دان سیف الرحمن جسرا نے مقابلے کے امتحان کو قومی زبان میں لینے کی درخواست کی ۔ جسٹس عاطر محمود نے استدعا قبول کرتے ہوئے 14فروری 2017کو وفاقی پبلک سروس کمیشن کو 2018 سے مقابلے کا امتحان اردو میں لینے کا حکم جاری کیا جس کے ایک ماہ بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ایک درخواست برائے نظر ثانی پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منظور علی شاہ نے سابقہ فیصلے کو معطل قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا ۔ دریں اثناء معروف قانون دان اے کے ڈوگر نے جناب ڈاکٹر شریف نظامی کی جانب سے دوبارہ عدالت عالیہ سے مقابلے کے امتحان کو اردو میں لینے کی درخواست دائر کر رکھی ہے ۔ ساتھ ہی راقم کی بھی حکومت پنجاب کو عدالت عظمی کے فیصلہ 8ستمبر 2015پر عمل نہ کرنے کے خلاف درخواست دائر ہے جو تاریخ در تاریخ کا شکار ہے مگر 13مئی 2019کو امیر جماعت اسلامی محترم سینیٹر سراج الحق نے ایوان بالا (سینٹ) میں مقابلے کے امتحان قومی زبان میں لینے کے حوالے سے قرار داد پیش کی جو اس ترمیم کے ساتھ کہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں امتحان لیا جائے ۔قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی ۔ ایک رپورٹ کے مطابق قرار داد میں کہا گیا کہ اعلیٰ ترین مرکزی ملازمتوں کا امتحان انگریزی کی بجائے اردو میں لیا جائے ۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ سی ایس ایس میں 45اختیاری اور6لازمی مضامین ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں لازمی مضامین انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ میری تجویز ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان میں زبان کا انتخاب اختیاری ہونا چاہیے ۔ سینیٹر جناب سراج الحق نے ایوان بالا کو بتایا کہ ان امتحانات کے لازمی مضامین پاس کرنے والوں کی تعداد 5 فیصد سے بھی کم تر ہے ۔ آئین پاکستان کے مطابق جس اردو کو 15سال بعد نافذکرنا تھا آج ستر سال گزر چکے ہیں ۔ سینیٹر سرا ج الحق نے کہا کہ چین جاپان جرمن سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی قومی زبان کے ذریعے ہی ترقی کرپائے ۔ ہم بھی آزاد خود مختار ملک ہیں ۔ قومی زبان میں مقابلے کا امتحان کروا کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں جس پر چیئر مین سینٹ نے کہا کہ قرار داد میں اردو کو اختیاری کر دیتے ہیں لہذا ترمیمی قرار داد کے مطابق سی ایس ایس کا امتحان انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی لیا جا سکتا ہے ۔ جناب سرا ج الحق کے اس قومی و فکری جدوجہد پر جماعت اسلامی پاکستان اور امیر جماعت سراج الحق خرا ج تحسین کے مستحق ہیں ۔ اس سلسلے میں قومی زبان تحریک کے وفد نے راقم کے ہمراہ جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر منصورہ گئے ۔ امیر جماعت سے بالمشافہ مل کر تشکر و تحسین کے کلمات پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ سینٹ آف پاکستان کے نظریاتی ارکان کے ہمراہ فیڈرل سروس کمیشن کے چیئر مین اور وفاقی وزراء سے ملاقات کرکے قومی زبان کے نفاذکیلئے آمادہ کیا جائے ۔وفد میں جمیل بھٹی ، پروفیسر عدنان عالم اور حامد انوار شامل تھے ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سینٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد محروم طبقے کی ترقی کا راستہ کھلے گا اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر مخصوص طبقے کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی ۔
قارئین کرام ۔ ہر دور کے ماہرین لسانیات اس امر پر متفق پائے جاتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کی تحقیق و تخلیق اسی زبان میں ممکن ہے جس زبان میں انسان سوچتا اور خواب دیکھتا ہے لہذا قومی زبان کے نفاذسے ہی قوم و ملک ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیںدوسری جانب ہر اعلیٰ افسر ڈاکٹر انجینئر گو ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھنے والی شخصیت عوامی امنگوں اور ملی جذبوں کی پاسبان و ترجماں ہوگی ۔ وطن عزیز طبقاتی علاقائی لسانی اور فکری تنازعوں سے پاک ایک جدید فلاحی اسلامی جمہوری ریاست بن پائے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024