گذشتہ 72 برسوں میں پاکستان اور بھارت کے آپسی تعلقات کیسے رہے ہیںیہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ ہر کوئی بخوبی جانتا ہے کہ ان تعلقات کو ’’اتار چڑھائو‘‘ کا نام دینا بھی مشکل ہے کیونکہ زیادہ تر ان دونوں ممالک میں تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں مختلف اوقات میں بہتری کی کوششیں متعدد بار ہوتی رہیں مگر ؎
نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی
یہاں آتے آتے، وہاں جاتے جاتے
یوں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مارچ 1977 میں جب مرار جی ڈیسائی نے بھارتی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اس کے بعد کے 27 ماہ کو ہی پاک بھارت باہمی تعلقات کا نسبتاً بہتر عرصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ اسی دوران پاکستان کی جانب سے مرار جی ڈیسائی کو وطن عزیز کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان پاکستان‘‘ دیا گیا تھا ۔ یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ موصوف واحد شخصیت ہیں جنھیں پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان پاکستان‘‘ اور ’’بھارت رتن‘‘ حاصل ہوئے۔ یاد رہے کہ مرار جی ڈیسائی نے اپنے منتخب ہونے کے فوراً بعد ’’رائ‘‘ کے بجٹ میں تقریباً نصف حد تک کٹوتی کر دی تھی ۔ اس کی وجہ انھوں نے بیان کی کہ راء جنوبی ایشیاء میں امن کے قیام میں رکاوٹ ہے اور اس کے طرز عمل کی وجہ سے بھارت کے تعلقات خطے کے ممالک سے بہتر نہیں ہو رہے ۔ بہرکیف اس وقت بھارت میں انتخابی مہم کا چھٹا مرحلہ گزشتہ روز مکمل ہو چکا ہے اور ساتویں اور آخری مرحلے کے بعد 23 مئی کو نتائج کا اعلان ہو گا۔
راقم کی رائے میں بھلے ہی BJP کو فتح حاصل ہو یا پھر کانگرس اور تھرڈ فرنٹ کو حکومت کا موقع ملے، مگر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات خاصے مدہم ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے اندر صوبائی انتخابات کا عمل وقفوں سے پورے 5 سال جاری رہتا ہے، ہر چند ماہ بعد کسی بھارتی صوبے میں انتخابات کا بگل بجنے لگتا ہے۔ اسی وجہ سے BJP اور کانگرس نے اپنے ملک (بھارت) میں چنائو جیتنے کا یہ آسان ’’نسخہ کیمیا‘‘ ڈھونڈ نکالا ہے کہ بھارت کے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کو ہندوستانی داخلی سیاست کا محور بنائے رکھا جائے۔ یوں بھارت کے حقیقی مسائل حل کئے بغیر ہی انھیں اپنے مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں اور خطے میں مستقل طور پر ایک تنائو کا ماحول برقرار رہتا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں تو مودی نے اقتدار سنبھالنے کے روز اول سے ہی گویا طے کر لیا تھا کہ ہندوستان کے اقتصادی مسائل چونکہ انتہائی زیادہ ہیں اس لئے اس ضمن میں کوئی بڑی پیش رفت ان (مودی) کے لئے تقریباً ناممکن ہے، لہذا عیاری پر مبنی سفارت کاری کے ذریعے دنیا بھر میں یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان ہی علاقے میں تمام تر مسائل کا ذمہ دار ہے۔ اپنے اسی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر مودی نے وزیراعظم منتخب ہونے کے چند گھنٹوں میں ہی پہلا حکم انڈین انٹیلی جنس بیورو کے سابق چیف اجیت ڈووال کو بھارتی قومی سلامتی کا مشیر مقرر کرنے کا جاری کیا اور پھر یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا جو تاحال پوری شد و مد سے چل رہا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ اجیت ڈووال ہی وہ شخصیت ہیں، جنھوں نے ’’افینسیو ڈیفنس‘‘ کی اپنی نام نہاد تھیوری پر عمل پیرا ہونے کا فخریہ طور پر اعلان کیا اور اپنے قول و فعل سے اس پر عمل کر کے دکھانے کی بھی ہر ممکن سعی کی۔ اس ضمن میں آنجہانی بھارتی وزیر دفاع منوہر پریارکر نے بھی ایک سے زائد مرتبہ ’’کانٹے سے کانٹا ‘‘ نکالنے کی اپنی پالیسی کا اظہار کیا۔ اس سے موصوف کی مراد یہ تھی کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کو منظم ڈھنگ سے فروغ دیا جائے گا۔
علاوہ ازیں بھارتی وزیر مملکت برائے اطلاعات راجیو وردن اور سابق انڈین آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ اعتراف اور انکشاف کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اندر سے ہی نقصان پہچانے کی ہر ممکن سعی کی جائے گی۔ پچھلے چند سالوں میں جس طرح سے راء اور این ڈی ایس کے ذریعے منگلا ڈیم سی پیک ، پولیو اور سابقہ فاٹا کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں، یہ بھارت کی اسی مکروہ روش کا تسلسل ہے۔ خطے کے بعض دیگر ممالک بھی وقتا فوقتاً بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سے اس ضمن میں اپنا حصہ ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے داعش کا نام بھی جس طرح سامنے آ رہا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ساری قوتیں مل کر وطن عزیز کے خلاف ’’سہولت کار‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہیں اور یوں یہ بھارتی ریشہ دوانیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔
حالانکہ کسے معلوم نہیں کہ پاکستان کی تمام تر حکومتیں کہہ چکی ہیں کہ پاکستان بھارت کیساتھ ‘‘ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ پر کسی بھی سطح کے مذاکرات‘‘ شروع کرنے پر ہمہ وقت تیارہے۔ مگر چونکہ دہلی کا حکمران ٹولہ اس حوالے سے سنجیدہ نہیں لہذا یہ سلسلہ شروع ہونے کے بعد دہلی کی جانب سے کسی نہ کسی بہانے سے توڑ دیا جاتا ہے اور معاملات پھر جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابی نتائج سے بھی خطے میں کسی بڑی پیش رفت کی توقع غالباً عبث ہی ہو گی۔ ایسے میں مذاکرات کی کوشش کو اگرچہ جاری رکھا جائے مگر اس حوالے سے کسی مثبت نتیجے کی امید نہ رکھی جائے ۔ دوسری جانب پاکستان کے معاشی مسائل پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ اسی کیساتھ ساتھ بھارتی دیرینہ روش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے قومی سلامتی کے تقاضوں کی جانب سے کسی قسم کی غفلت اور تساہل ہر گز نہ برتا جائے اور اس بھارتی ففتھ جنریشن وارفیئر کا خاطر خواہ جواب دیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38