محکمہ ڈاک کا نام رومانوی پس منظر کے دریچے کھول دیتا ہے جیسے کبھی ریل اور انجن کی چھک چھک دل ودماغ میں یادوں کا سیلاب لاتی تھی۔ برا ہو سرمایہ کی کمیابی اور بدانتظامی کا جس نے ان رومان پرور اداروں کا بھٹہ بٹھا دیا لیکن ڈاک کا محکمہ پھر سے سرسبز ہونے لگا ہے، پھلنے پھولنے اور برگ وبار لانے لگا ہے، محسوس ہورہا ہے کہ پھر سے رومان پروری کی نئی داستانیں عام ہوں گی، محبوب کو چٹھی پہنچانے کا کام اب کبوتروں سے کرانے کی ضرورت نہیں رہی، محکمہ ڈاک یہ فرض نئے جذبے سے ادا کررہا ہے اور اب چاہیں تو محبوب کو ’میڈاِن پاکستان‘ کوئی تحفہ بھی ارسال کرسکتے ہیں، اس سے آپ کا رومان اور محکمہ ڈاک کی آمدن دونوں بڑھیں گے۔
مراد سعید سے میری کوئی شناسائی نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کا کام بول رہا ہے۔ محکمہ ڈاک کی آمدن 8 ارب روپے ایک سال میں بڑھ کر16 ارب ہو چکی ہے۔ وزیر مواصلات اور پوسٹل سروسز کا عملی کارنامہ ہے اب لاجسٹک سیل میں جلد انقلابی تبدیلی لانے کا اعلان کیاگیا ہے۔ شہریوں کے لئے محکمہ ڈاک کے ریسٹ ہاوس کھل گئے ہیں، وہ سیر کریں اور ان عالی شان سرکاری بنگلوں میں قیام کریں، شہری بھی خوش اور خزانے میں آمدن کا بھی مستقبل ذریعہ بن چکاہے ۔ای کامرس کا نیا رجحان متعارف اتنا مقبول ہورہا ہے کہ اس کے ذریعے چھیالیس ہزار پارسل بھجوائے گئے۔ محکمہ ڈاک کا کاروبار اتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ اربوں روپے خسارے میں چلنے والے ریلوے سے کہاگیا ہے کہ وہ ایک بوگی ڈاک کے محکے لئے بڑھا دے۔ ’میڈاِن پاکستان‘ مصنوعات کا ایک نیا منصوبہ پوری دنیا میں شروع کرنے کا اعلان کیاگیا ہے جس سے پاکستانی مصنوعات اور محکمہ ڈاک دونوں کے وارے نیارے ہوجائیں گے اور یہ منصوبہ کامیابی کی صورت میں علی بابا طرز پر ایک نیا نفع مند اقدام ثابت ہوگا۔ نوجوان مراد سعید نے محکمہ ڈاک میں ایک نئی جان ڈال دی ہے اور اسے متحرک ، فعال اور نفع بخش ادارے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ واقعی تبدیلی ہے اور پی ٹی آئی کی تبدیلی کا اگر حقیقی چہرہ دیکھنا ہو تو اس وقت وہ مراد سعید ہے۔
مراد سعید کی یہ سوچ درست ہے کہ سرکاری محکموں میں تنزلی کے باعث قومی خزانے سے سرمایہ ان ہاتھیوں کی دیکھ بھال اور انہیں زندہ رکھنے پر صرف ہوجاتا ہے اور قوم کی صحت اور تعلیم کا مقصد گہنا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں پر زیادہ رقوم خرچ ہوں تاکہ قوم کو بیماریوں سے نجات ملے اور وہ باشعور و ہنر مند ہوکر ملک کے لئے اور بھی زیادہ فائدہ مند بنے۔ مراد سعید 17اگست 1986ء کو پیدا ہوئے، انہوں نے سوات میں ابتلاء و آزمائش کا دور دیکھا ہے اور نوجوان کی حیثیت سے ان کے اندر کچھ کرنے کا جو جذبہ ہے، عمران خان کی قیادت میں وہ تعبیر پارہا ہے۔ عمران خان نے اہم وزارتیں مراد سعید کو دی تھیں، اپنی عمر کے لحاظ سے غالبا وہ سب سے کم عمر وزیر ہیں لیکن ان کے جذبات کی شدت شاید سب سے زیادہ ہے۔
ایک طرف ان کا آتشیں طرز عمل بیانات کی صورت میں سامنے آتا ہے، عمران خان کے دفاع میں قومی اسمبلی کے اندر اور باہر وہ زہر میں بجھے تیر مخالفین پر تاک تاک کر پھینکتے ہیں۔ ان کے جملوں اور انداز سے اپوزیشن کو یقینا سخت تکلیف پہنچتی ہے، پی ٹی آئی کے حامی ان کے طرز تکلم سے خوش ہوتے ہیں۔ عمران خان کے لئے وہ ہاتھا پائی اور عملی لڑائی سے بھی گریز نہیں کرتے اور قومی اسمبلی میں ایسے کئی منظر ہم دیکھ چکے ہیں جس میں مراد سعید اپوزیشن خاص طورپر مسلم لیگ (ن) کے مبینہ کرپٹ رہنماوں پر بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہوتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
عمران خان بھی انہیں ان کی کارکردگی کی بناء پر بے حد تحسین سے نوازتے ہیں۔ کابینہ اجلاس میں ان کی تعریف ہوتی ہے۔ وزارتوں کی کارکردگی کا سلسلہ چلا تو مراد سعید اور ان کی وزارت کو شاباش ملی۔ ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے کسی کو توقع نہیں تھی کہ وہ اس چابک دستی سے بیمار محکموں کو تیز گام بنا دینگے۔ کئی لوگوں کا یہ تبصرہ رہا کہ کم عمری اور تجربہ نہ ہونے کی بناء پر وہ شاید کوئی اچھی مثال نہ بن سکیں جیسا کہ شہریار آفریدی کے حوالے سے تنقید کی گئی کہ وہ کم عمری اور ناتجربہ کاری سے وہ اثرات نہ دکھا سکے جو گھاگھ وزارتوں اور ان میں بیٹھے ’’ماہرین‘‘ سے کام لینے کیلئے لازم ہے۔ عمران خان ان نوجوانوں کے جذبے کو شاید دیکھ رہے تھے، اسی لئے انہوں نے انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع دیا۔
غیرجانبدارانہ انداز میں تجزیہ کیاجائے تو مراد سعید نے واقعی عمران خان کے انتخاب کے درست ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ انہوں نے دعوے اور شور مچائے بغیر ایک خاموش انقلاب محکمہ ڈاک میں برپا کردیا ہے۔ اسی جذبے اور اہلیت کی دیگر وزارتوں اور محکمہ جات میں بھی ضرورت ہے۔ تخلیقی انداز میں کام کرنے سے تبدیلی ممکن ہے۔
محکمہ ڈاک پاکستان کی شناخت ہے۔ 1947ء میں اس نے پہلا ڈاک ٹکٹ جاری کیاتھا، جس پر پاکستان زندہ باد لکھا تھا۔ ایک روپے کا یہ ٹکٹ آج بھی ہمیں اپنے ماضی کی جھلک دکھاتا اور کئی یادیں تازہ کردیتا ہے۔ علامہ اقبال، عبدالستار ایدھی، جون ایلیا، حبیب جالب، دیوان بہادر ایس پی سنگھا، ایم ایم عالم، اشفاق احمد جیسی شخصیات ہوں یا پھر پانی کی بچت، پہلے 100 میگاواٹ شمسی توانائی سے چلنے والا پلانٹ ہو یا قدیم عمارات کا تعارف محکمہ ڈاک اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
حال ہی میں شہریوں کو مہنگے ہوٹلوں اور بدتمیز عملہ سے نجات دلاتے ہوئے سیاحت کیلئے جانے والوں کو نئی سکیم دی گئی ہے جو یقینا ہمارے سیاحتی مزاج میں بڑی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ محکمہ ڈاک کے ملک کے طول وعرض میں ریسٹ ہاو سز کو اب عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ عوام معمولی رقم خرچ کرکے اب ان ریسٹ ہاو سز میں ٹھہر سکتے ہیں۔ یہ عالی شان عمارات کسی بھی ہوٹل کے مصنوعی ماحول سے یکسر الگ ہیں۔ محکمہ ڈاک اور ریلوے کے پاس قدیم طرز پر تعمیر ہونے والی خوبصورت عمارات کی پوری کلیکشن ہے۔ یقینا ان میں ٹھہرنے سے ماحول اور تفریح کا لطف بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔
ان اقدامات پر مراد سعید اور سیکریٹری پاکستان پوسٹل سروسز پیر بخش خان جمالی، چئیرمین اور ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نصیر احمد خان اور ان کی ٹیم لائق تحسین ہے۔
محکمہ ڈاک پاکستان کا بنیادی اور سب سے بڑا پوسٹل آپریٹر ہے، ایک اندازے کے مطابق چوالیس ہزار ملازمین اس ادارے کو رواں رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ پانچ ہزار روایتی پیادہ عملہ گھر کی دہلیز پر آپ کو خطوط، دستاویزات اور دیگر سامان پہنچانے کا فرض ادا کرتا ہے۔ گرمی ہو سردی ہو، آندھی یا طوفان ہو یا کوئی بھی حالات کیوں نہیں، ’ڈاک والا‘ ایک ایسا امانت دار ہے جو آپ کی امانت آپ تک پہچا کر ہی دم لیتا ہے۔ یہ ہماری روایت، ادب اور تاریخ کا قابل فخر اور انمٹ باب ہے۔ ملک بھر میں تیرہ ہزار ڈاک خانے ہیں جو ایک اندازے کے مطابق پانچ کروڑ سے زائد پاکستانیوں کو خدمات کی فراہمی کرتے ہیں۔ خط ہی نہیں پیسوں کی فراہمی اور ترسیل کا بھی یہ بہت اہم ذریعہ ہے جسے افسوس کا مقام ہے کہ ماضی میں نجی شعبے کی طرز پر ترقی نہ مل سکی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024