آئی ایم ایف ہمارے لیے ہاتھ میں ڈنڈا تھامے کسی پرانی طرز کے سکول ٹیچر سے کم نہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر ہوں یا چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی آئی ایم ایف کے ہم خیال ٹیچر ہیں۔ آئی ایم ایف ہم سے زیادہ ہماری فنانس کی رگ رگ سے واقف ہے۔ پہلی بار آئی ایم ایف سے مذاکرات مہینوں پر محیط ہو گئے۔ حکومت کا 9واں مہینہ چل رہا ہے۔ تخلیق انسانی کے لیے اتنی ہی مدت خالق نے متعین کررکھی ہے۔ آئندہ بجٹ میں 700 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم ہونے جا رہاہے۔ ریونیو ہدف 5550 ارب روپے مقرر کرنے کا مطالبہ ہے۔ باس کے کہنے پر 1600 روپے کے اضافی ٹیکس لگیں گے ۔ پاور اور گیس سیکٹر سے بھی سبسڈیز کا خاتمہ ہو گا۔ پٹرولیم قیمتوں میںاضافے کے خلاف کس دور میں احتجاج نہیں ہوا ، نتیجہ ہمیشہ صفر رہا۔ عوام کو ریلیف نہ دینے والی پہلی حکومت دیکھی کیا ہم واقعی معاشی خودمختاری پر سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ ریونیو سسٹم کو درست کرنا پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے ذمہ واجب الادا غیر ملکی قرضوں کا حجم 30 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔ اگلے ماہ 2.5 ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ بھی چکانا ہے۔ جاپان فرانس جرمنی اور امریکہ ہماری طرف سے ادائیگیوں کے منتظر ہیں۔ ہزار منتوں کے بعد آئی ایم ایف سے 6.4 ارب ڈالر مل جانے سے زرمبادلہ کے ذخائر 13 ہزار ارب کے قریب پہنچ جائیں گے۔ آئندہ دو سال میں آئی ایم ایف کو 27 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ گردشی قرضوں کی رقم 114 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ رضا باقر ہوں یا شبرزیدی یا حفیظ شیخ خوفناک قرضوں کا کیسے مقابلہ کریں گے؟ بھاری بھرکم غیر ملکی قرضوں کے بغیر گھرکیسے چلائیں گے۔ سی این جی ، بجلی ، گیس ، پٹرول کی آفتوں کو کیسے ٹالیں گے؟ رمضان بازاروں میں سبسڈی دینے کے باوجود پھل اور سبزیاں مہنگی جبکہ اوپن مارکیٹ میں سستی ہیں۔ کیا احتساب اور تبدیلی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، جو پہلے تھا سو اب بھی ہے۔ پروٹوکول اور سیکورٹی میں کون فرق سمجھے اور سمجھائے گا۔ پاکستانیوں کا دل ہلا دینے والی خبر تو یہ ہے کہ بجلی ڈیڑھ سال تک مہنگی ہوتی رہے گی ۔ وزارتوں میں چائے پانی اور گفٹ کا بجٹ ختم ہوا ہے لیکن سرکاری ملازموں کے لیے رشوت کی شکل میں چائے ، پانی اور گفٹ کو کون روک سکتا ہے۔ اسی چائے پانی اور گفٹ کا نام نوکر شاہی اور افسر شاہی ہے۔ بجلی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا ، 31 دسمبر 2020 ء تک گردشی قرضے صفر ہو جائیں گے۔ بجلی مہنگی کرنے سے 202 ارب روپے ملیں گے۔ ایمنسٹی سکیم آئی ایم ایف پروگرام سے پہلے جاری ہو گی۔ 170 ارب روپے ملنے کا امکان ہے۔ سکیم سے 2500 روپے کے اثاثے قانونی بن سکتے ہیں۔ مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 6 فیصد زائد ہو چکی ہے۔ یوٹیلٹی سٹوروں پر 19 اشیائے خور و نوش سستے داموں فراہم کرنے کے لیے دو ارب روپے کا رمضان پیکج جاری ہونے کے باوجود ان سٹوروں پر آٹا، چینی ، گھی ، تیل ، دالیں ، کھجور، چاول اور مشروبات مہنگے داموں فروخت کئے جا رہے ہیں۔ سستے بازاروں میں اشیاء کا معیار افسوس ناک حد تک گھٹیا ہے۔ چھوٹا گوشت 1100 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ لیموں چار سو اور سیب تین سو روپے کلو ہے۔ پھل اور سبزی فروشوں کوکوئی لگام دینے والا نہیں۔ سستے بازار حکمرانوں کے فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ عوام کو ان سے کوئی فائدہ ملنے کی بجائے سستے بازاروں کے نام پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ضائع ہو گئے۔ ریڑھی والوں کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ، کہاں ہیں ضلعی انتظامیہ، پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مجسٹریٹس؟ تربوز جیسا پھل بھی دو چار سو روپے سے کم میں نہیں ملتا۔ جتنی مٹی لفظ چیلنج کی پلید ہوئی ہے، شاید ہی لغت میں کسی اور لفظ کی ہوئی ہو، ہر سرکاری عہدیدار کے لیے اس کا عہدہ چیلنج ہی ہوتا ہے۔ آئی جی کے لیے امن و امان کا مسئلہ چیلنج ، عمران خان کے لیے مہنگائی چیلنج ، نئے چیئرمین ایف بی آر کے لیے ٹیکسوں کا ہدف چیلنج ہے۔ عام سڑکوں اور اسمبلیوں کے فلور میں اب بہت کم فرق رہ گیا ہے۔ احتجاج، دھرنا، گھیرائو، ہنگامہ آرائی دونوں جگہوں پر ہوتی ہے۔ ایسا منظر عوام سے زیادہ بچوں اور نوجوانوں کے لیے زیادہ حیران کن ہے۔ حزب اقتدار کے مقابلے میں اپوزیشن کی سینہ زوری بڑھتی جا رہی ہے۔ وقت گزرنے سے نا تو اپوزیشن توانا ہوتی جاتی ہے۔ مارشل لائی دور اس بات کے گواہ ہیں چند سال بعد ہر آمر کے پائوں لرزنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا اپوزیشن دھرنے کی سیاست کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اپوزیشن نے دھرنے کا قاعدہ بھی عمران خان سے پڑھا تھا۔ اجتماعی استعفے بھی ایک آپشن ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں۔ حکومت ہر طرح کی سب سڈی ختم کرنے پر آمادہ ہے۔ بجلی کے نرخوں میں فوری اضافے کی شرط کو قبول نہیں کیا۔ 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے نئے بجلی گھروں کے لیے بجلی کے نئے نرخ طے ہوں گے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے حکومت کو 340 ارب کی اضافی آمدن ہو گی۔ اس وقت ٹیکسوں کی وصولی میں 360 ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ ن لیگ نے 5 سال میں ٹیکسوں کی وصولی 1800 ارب سے بڑھا کر 39 سو ارب سے زائد کر لی تھی جبکہ عمران خان نے ٹیکسوں سے وصولی 8 ہزار ارب روپے تک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ایف بی آر کے بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے پہلے اور نئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کم ٹیکس دینے والوں اور نان فائلرز کا تعاقب کریں گے۔ حفیظ شیخ، رضا باقر اور شبرزیدی پر مشتمل ٹیم تبدیلی تو ضرور لائے گی مخالفوں کے نزدیک آئی ایم ایف ہمارے لیے دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو سکتی ہے۔ آئندہ 70 سال میں قرضوں کی ادائیگی 31 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی پھر مہنگائی کا عالم کیا ہو گا۔ بلیک اکانومی کا حجم 30 فیصد ہے۔ شبر زیدی کے نزدیک اسے ٹیکس نظام میں لانا ہو گا اور ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے پرپابندی ہو گی ۔ ادھر وزیر اعظم کی نظر میں مہنگائی برداشت کرنا ہو گی ، بجلی ، گیس کے ادارے مقروض ہو چکے ہیں ، جی ڈی پی 3.29 فیصد تک گر گئی ہے۔ 40 لاکھ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے اور 10 لاکھ کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔ گزشتہ 9 ماہ میں شرح مبادلہ میں تین بار کمی ہوئی جو 34 فیصد ہے۔ کپاس ، چاول اور گنے کی فصلیں انتہائی کم سطح پر ہیں۔ آئندہ ایک ڈیڑھ سال میں جی ڈی پی کی شرح کے اعتبار سے پاکستان کا مجموعی قرضہ اور بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ بجٹ خسارہ 29 کھرب روپے سے زائد ہو سکتا ہے۔ 54 ہزار کمپنیاں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرا رہیں۔ 700 ارب روپیہ انڈر انوائسنگ کی نذر ہو رہا ہے۔ 5 کروڑ 75 لاکھ ملازمت پیشہ افراد میں اکثر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ کوئی بھی حکومت عوام کے دلوں میں یہ اعتبار پیدا نہیںکر سکی کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ انہی پر خرچ ہو گا۔ آئی ایم ایف نے بھی بہت سخت شرائط رکھی ہیں، ہم پھنس گئے ہیں، وزیراعظم غریبوں کو سستے گھر، گائے ، بھینسیں، بکریاں اور مرغیاں دیں گے۔ اگر غریبوں کو سستا اور فوری انصاف گائے کا صاف ستھرا گوشت، بکروں کا پانی کی ملاوٹ سے پاک گوشت اور مرغیوں کی بجائے مرغی کا گوشت اور انڈے ہی ملتے رہیں تو بڑی بات ہو گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024