پیر ‘ 14 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 20 ؍مئی 2019ء
مودی کی پانچ سال میں پہلی کانفرنس
کسی سوال کا جواب نہ دے سکے
ویسے تو یہ کاغذی پہلوان جلسے جلوسوں میں ’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘ بنا ہوتا ہے۔ اِدھر اُدھر ٹھاہ ٹھاہ کر کے منہ سے ہوائی فائرنگ کرتا نظر آتا ہے۔ یہ پریس والوں کے سامنے وہ بھی پانچ سال حکومت کرنے کے بعد پہلی بار کانفرنس کرنے آئے تو مودی جی کی آواز ہی نہیں نکل پائی اور یوں
پریس کانفرنس تماشہ بنی
مودی کا ہاسا بنی
اخبار والے ویسے بھی بڑے کائیاں ہوتے ہیں اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔ پریس کانفرنس کے شروع میں ہی انہیں پتہ لگ گیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے اپنے گونگے بہرے بنے وزیراعظم کا خوب توا لگایا۔ سوالات کی بھرمار کر دی۔ اس موقع پر مودی کے پالتو امیت شاہ جھٹ سے ڈھال بن کر اس ریت کی دیوار کے سامنے آ گئے اور سوالات کا جواب بادل نحواستہ دیتے رہے۔ مودی تو بس حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ شاید انہیں پہلے خبردار کر دیا گیا تھا کہ کچھ نہ بولنا پہلے ہی ان کا بولنا بی جے پی والوں کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ لوگ ان کے بے تکے بیانات پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ سرعام ان پر جملے کستے ہیں۔ اب یہ خاموشی بھی ان کے لیے ایک نئی مصیبت بن گئی اور چپ رہیں تو قیامت ہوتی ہے بولیں تو ستائے جاتے ہیں والا معاملہ بن گیا ہے۔ اپوزیشن نے تو اس خاموشی کو بھی آڑے ہاتھ لیا ہے اور میڈیا پر ہر جگہ مودی جی کے ڈھول کا پول کھل رہا ہے یا بج رہا ہے۔ بولنے سے بھی زیادہ اس چپ رہنے پر تماشہ لگ رہا ہے۔ اب مودی جی پریشان ہیں جائیں تو جائیں کہاں…
٭٭٭٭٭٭
سمگل شدہ اشیا فروخت کرنا شریعت
کے خلاف ہے۔ چیئرمین ایف بی آر
کوئی بھی ذی ہوش چیئرمین ایف بی آر کی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا۔ یہ سمگلنگ کا دھندا ہی غیر شرعی ہے۔ مگر اس کام میں سارے باشرع نمازی حاجی قسم کے لوگ سراپا غرق نظر آتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پی کے اس دھندے کے گڑھ ہیں۔ جہاں سب متقی لوگ اسے عین اسلامی اور جائز حلال قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک یہ کاروبار ہے۔ شاید ایف سی ، پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس بھی اس کے اسلامی ہونے پر اتنا ہی یقین رکھتی ہے جتنا یہ حاجی حضرات رکھتے ہیں۔ اگر ہماری پولیس ، ایف سی اور بارڈر سکیورٹی والے سمگلنگ کو غیر اسلامی مانتے تو پھر یہ اربوں روپے کا مال روزانہ کس طرح افغانستان، ایران اور بھارت کے راستے سمگل ہو کر پاکستان آتا ۔ جہاں قدم قدم پر چیکنگ ہوتی ہے۔ کروڑوں روپے روزانہ سمگلر رشوت دے کر یہ کاروبار چلاتے ہیں۔ ورنہ پاکستان میں ہائی ویز اور ٹرین کے راستے یہ مال کس طرح سفر کر کے مختلف شہروں میں پہنچتا ہے۔ اب صرف دکانداروں کو شریعت کا سبق پڑھانا عبث ہے وہ تو پہلے ہی منافع کے نام پر حلال حرام کی تفریق بھول چکے ہیں۔ ان کا مقصد حیات ہی مال کمانا ہے۔ اب چیئرمین ایف بی آر نے فتویٰ تو دے دیا ذرا آگے بڑھ کر سمگلنگ کا مال فروخت کرنے والی دکانیں بند کروائیں۔ سمگلنگ کے چور دروازے بند کرائیں تو بات بنے۔
٭٭٭٭٭٭
سندھ اسمبلی میں مشرف دور کا
پولیس آرڈر بحال کرنے کا بل منظور
اب اپوزیشن کی طرف سے اس پر شور مچایا جائے یا واک آئوٹ کیا جائے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے ہاں جو چیز اپنے بھلے کے لیے ہو وہ آناً فاناً منظور کر لی جاتی ہے۔ جمہوریت یا آمریت کا فرق مٹا کر ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ والا فارمولہ لاگو کردیا جاتا ہے۔ ویسے بھی مشرف دور کے کتنے ہی سیاستدان آج حکومت کرنے والوں کے پہلو میں سرشار بیٹھے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اب کسی کو حیرت ہے تو وہ منہ کھول کر اس کا اظہار کرے یا دانتوں تلے انگلی دبا کر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دور مشرف کا ہو یا پیپلز پارٹی کا دونوں اصل میں ایک ہیں۔ اختیارات زیادہ سے زیادہ اپنے قبضے میں رکھنے کیلئے پولیس کو اپنا غلام بنانے کیلئے ان سے بُرے بھلے کام نکلوانے کیلئے یہ بل منظور کرنا ضروری تھا تاکہ پولیس پر صوبائی حکومت کا اثر و رسوخ زیادہ ہو اور پولیس والے من مرضی نہ کر سکیں یعنی آزادانہ کام نہ کر سکیں۔ کوئی حکومت کہاں برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے حامیوں یا خاص بندوں کو پولیس جرائم یا کرپشن کی بنیاد پر پکڑ کر پرچہ دے دے۔ سو اب سندھ حکومت نے پولیس کے پر کترنے کیلئے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ دیکھتے ہیں بے بال و پر یہ محکمہ کیا کارکردگی دکھاتا ہے۔ تاہم اس بل کے منظور ہونے کے بعد بہت سے لوگ پولیس کو دیکھ کر اپنی مونچھوں پر تائو دیتے نظر آئیں گے…
٭٭٭٭٭٭
میوہسپتال میں 4 سو افراد کے
قیام کیلئے پناہ گاہ کا افتتاح
موجودہ حکومت کے اچھے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ مختلف شہروں میں غریب افراد کیلئے عارضی قیام گاہیں پناہ گاہ کے نام سے تعمیر کر رہی ہے۔ ویسے تو ان پناہ گاہوں کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ شہر سے باہر یا دوسرے شہروں سے کسی کام کیلئے آنے والوں کو چند روز کیلئے مفت میں سر چھپانے ا ور کھانے پینے کی سہولت دستیاب ہو۔ اس سکیم سے غریب اور کم وسیلہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح اب میوہسپتال میں بھی 400 افراد کے قیام کیلئے جو قیام گاہ بنی ہے اس سے بھی مریضوں کیساتھ آنیوالے لواحقین بھی سڑک پر فٹ پاتھ پر یا پارک میںکھلے آسمان تلے شب بسری سے بچ جائیں گے۔ یہ منصوبے بہت اچھے ہیں۔ مگر ان کی کڑی نگرانی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ہاں ہر اچھے کام میں لچ تلنے والے مفت خور آن دھمکتے ہیں۔ اصل مستحق دیکھتے رہ جاتے ہیں اور یہ ان قیام گاہوں میں روزانہ مفت قیام کرتے اور کھاتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بس اڈے کے پاس ان قیام گاہوں پر ڈرائیوروں نے قبضہ جمایا ہوتا ہے۔ دیگر مقامات پر دیہاڑی داروں نے۔ ان قیام گاہوں پر صرف ایک یا دو روز قیام کی اجازت ہونی چاہئے وہ بھی ان لوگوں کوجو کسی کام کیلئے آئے ہوں نہ کہ روزانہ رہنے کیلئے یہاں ڈیرے لگانے۔ اس طرح ہسپتال میں صرف مریض کیساتھ آنیوالے ایک شخص کو ٹھہرنے کی اجازت ہو نہ کے پورے خاندان کو جو بارات کی طرح مریض کیساتھ سیروتفریح کیلئے لاہور آتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چلن عام ہے کہ مریض کے ساتھ 5 یا 6 افراد بمعہ بچوں کے آئے ہوتے ہیں اور ہسپتال انتظامیہ کیلئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ بھلا مریض کیساتھ اتنا مجمع لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے…
٭٭٭٭٭٭