حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
امریکا مختلف خطوں میں پیدا ہونیوالے ٹھہراو¿میں تلاطم پیدا کرنےکی انتشاری کوششیں اتنی ہی شدت سے کرتا ہے جتنی شدت سے وہ دنیا میں امن لانے کے جھوٹے دعوے کرتا ہے کبھی ویتنام اسکی عسکری خواہشات کی لیبارٹری بنتا ہے توکبھی انسانیت کش تمنائیں اسے افغانستان لابٹھاتی ہیں روس جیسے ہاتھی کیساتھ اس لڑائی میں خس وخاشاک کی طرح پستے افغانی اورمسلمان ہیں کبھی تیل کے ذخائرپرقابض ہونےکی خواہش اسے عراق میں لابساتی ہے جہاں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیارآزمائے جاتے ہیں نشانہ ایک بار پھرمسلمان ہیں۔لیبیا،شام اوریمن جیسے مسلمان ملکوں میں انتشار،افراتفری اورخونریزی کی شروعات میں بھی امریکا سمیت بیرونی عناصرزیادہ کارفرما نظرآتے ہیں لیکن وہ انتہائی کامیابی سے اسے اندرونی اختلاف قراردیکرکونے میں کھڑے تماشائی بن جاتے ہیں اوروہاں کی حکومتیں ،اپوزیشن اورعوام ایکدوسرے کے خون میں اپنے خیالات وافکارکو ڈوبتے ابھرتے دیکھتے رہتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے انسانیت سوز مظالم اوربھارتی بربریت دنیا میں کسی کو دکھائی نہیں دیتی اورفلسطین میں فلسطینی عوام کیساتھ ہونیوالی درندگی بھی کسی کی آنکھوں میں سماتی ہے نہ اسے پردہ خیال تک منتقل کرکے انسانیت اورانسانی حقوق کے تحفظ کے نعرے میں ڈھالتی ہے۔صیہونی عزائم پھربے نقاب ہورہے ہیں امریکا کی مسلم دشمنی روزروشن کی طرح عیاں ہے عیسائی اورصیہونی گٹھ جوڑ سے مسلم ممالک میں پیدا کیے جانیوالے انتشارکی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہوگی کہ امریکا نے مسلم امہ کے بیسیوں ممالک کی مخالفت کے باوجود متنازع علاقے میں نہ صرف اپنا سفارتخانہ قائم کیا بلکہ اس دوران احتجاج کرنے والوں پرطاقت کے وحشیانہ استعمال کی بھرپورحمایت کی اورمسلم قتل عام کو ہوا دینے کیلئے اسرائیل کو شہہ دی۔یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے افتتاح سے شروع ہونیوالی صیہونی مظالم کی نئی لہرمیں 61فلسطینی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جبکہ تین ہزارکے لگ بھگ زخمی ہیں اس بربریت میں خواتین اوربچوں کو کوئی استثنیٰ حاصل ہے نہ بوڑھوں اورمعذوروں کو معافی ۔انسان کو انسان سمجھا جارہا ہے نہ انسانیت کو شرف انسانیت بخشاجارہا ہے لیکن دنیا ہے کہ خاموش ہے۔ غزہ میں ماتمی جلوس نکالے جارہے ہیں فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے شہداءکے خون کا بدلہ لینے کا عزم کیا جارہا ہے لیکن آج کوئی بیت رضوان متوقع ہے نہ کسی مسلمان قبیلے ،ملک اوراتحاد میں کم طاقت کے باوجود ظالم سے لڑ جانے کی صلاحیت۔ہم بھی کیا لوگ ہیں ؟سب کچھ ہوتا دیکھتے ہیں انسانی لہو کی رنگینی آسماں پرمستقبل میں قتل وغارت کا اشارہ دے رہی ہوتی ہے لیکن ہم آنکھیں بند کیے وقت کا انتظارکرتے چلے جاتے ہیں جب خون بہنا شرو ع ہوتا ہے تو اپنا سرجھکا لیتے ہیں یا چھپا لیتے ہیں اورلہو رنگ ہوئی سڑکوں کو دیکھ کرسوچتے ہیں کسی اورکا خوں ہے ہم محفوظ ہیں کب تک رہیں گے ایسے محفوظ؟ ویتنام کے بعد افغان، اس کے بعد عراق، اسکے بعد لیبیا،شام ،یمن اوراب صیہونی ونصرانی اتحاد کے ایران کی جانب بڑھتے قدم سب دیکھ رہے ہیں لیکن دشمن کی ہیبت اورلزرہ طاری ہے دل سے آواز تک نہیں نکل رہی ہم سے۔۔امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کریں گے۔ گزشتہ دسمبر میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کی روایتی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ ایک قرارداد منظور کی جس میں صدر ٹرمپ کےاس فیصلے کو مسترد کیا لیکن دنیا میں کمزورکا قانون نہیں چلتا طاقت کا قانون چلتا ہے اڑھائی سوملک ایک طرف امریکا تنہا ایک طرف۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا مسلم امہ بھی دیکھ رہی تھی حالات کس طرف جارہے ہیں سب نظرآرہا تھا لیکن عملی اقدام ندارد۔آج مظلوم فلسطینیوں کا رونا توبنتا ہے مجھ سمیت مسلم امہ کے ہرفرد کا رونا دھونا بے سود ہے ہم نے اسے اپنا نقصان سمجھا ہی نہیں تھا متوقع خدشات کو حقیقت بننے سے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اپنے اپنے حکمرا نوں کومجبور نہیں کیا کہ وہ کوئی ٹھوس اقدام کریں۔
کیا مسلم امہ کے حکمراں اکسٹھ جانوں کے ضیاع سے پہلے ایسا کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے؟ کیا مسلم امہ کے حکمران امریکی فیصلے کیخلاف اپنے ممالک سے امریکی سفراءکو وطن واپس روانہ نہیں کرسکتے تھے؟امریکی سفیرنکالنے کی ہمت نہیں تواپنے سفیر ہی امریکا سے واپس بلالیتے؟کیا دباو¿ بڑھانے کیلئے اقتصادی پابندیوں کاہتھیار صرف امریکا اوریورپ ہی استعمال کرسکتے ہیں ہم نہیں؟نہیں شاید نہیں کرسکتے اسی لیے تمام مسلم ممالک انتظارکرتے رہے کہ یہ سب ہوجائے اسرائیلی مظالم اورفلسطینی مظلوموں کی آہ وبکاءپربھی کسی کا دل نہیں پسیجا ہم منتظررہے کہ امریکا اوراسرائیل ان بربریت سے ذرا وقت پائیں تو اپنی پروردہ عالمی تنظیم اقوام متحدہ کا اجلاس بلائیں جس میں وہ مذمت کریں اورہم ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔