نوازشریف کے انٹرویو میں لفظ ’’اجازت‘‘ اہم ہے
نوازشریف نے اپنے انٹرویو میں ممبئی حملے بارے جو ریمارکس دئیے انکی وجہ سے ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ مخالف میڈیانے خوب دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ مخالف سیاستدانوں نے بھی غداری کے سر ٹیفکیٹ جاری کئے ہیں۔ لیکن ایک سیاستدان نے بڑا میچور اور دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہر لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ میڈیا اور نوازشریف کو لفظوں کا استعمال احتیاط سے کرناچاہئے۔
انٹرویو کا جو حصہ متنازعہ بنا ہوا ہے وہ یوں ہے
Should we allow them to cross the border and kill 150 people in Bombay?
کیا ہمیں انکو اجازت دینی چاہئے کہ وہ بارڈر کراس کریں اور ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کردیں۔
اس فقرے میں اصل مسئلہ لفظ ’’اجازت ‘‘ کے استعمال کا ہے ۔خورشید شاہ کے بیان کے مطابق ایک لفظ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ہم یہاں اجازت کو صرف دومعنی میں استعمال کرکے دیکھتے ہیں۔ اول تو وہی مطلب ہے جو ہندوستان کے میڈیا نے نکالا یعنی پاکستان نے انکو اجازت دی یعنی انکو بھیجا کہ وہ ممبئی میں ہلاکتیں کریں۔ دوسرا مطلب سمجھنے کیلئے ذرا اس مثال پرغور کریں۔ چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری بھی ہے اور وہ کہتے بھی ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کی اجازت نہ دیں گے ۔اب اگر دھاندلی ہوجاتی ہے تو کیا اسکا مطلب ہوگا انہوں نے دھاندلی کی اجازت دے دی تھی۔ نہیں اسکا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دھاندلی روکنے میں ناکام رہے۔ اسی طرح جب نوازشریف سوال کرتے ہیں کہا ہم دہشت گردوں یا نان سٹیٹ ایکٹرز (جو حکومت کے زیر اثر نہیں) کو بارڈر کراس کرنے کیا اجازت دینی چاہئے تھی ؟ توا سکا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسکو روکنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان نے انکو بھیجا جیسا کہ بھارتی میڈیا نے اسکا مطلب نکال کر واویلا کیا۔بدقستمی کی بات یہ ہے کہ نوازشریف پر وطن دشمنی اور غداری کا الزام لگانے والے تبصرہ نگار اور سیاست دان نوازشریف دشمنی میں بھارت کے پراپیگنڈا کا شکار ہوگئے اور نوازشریف کی سیاست کو نقصان پہنچاتے پہنچاتے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے رہے۔ ہندوستان کے موقف کو تقویت پہنچاتے رہے اور خوش ہوتے رہے کہ پاکستان کے عوام نوازشریف کے خلاف ہوجائیں گے۔
اس انٹرویو کی وجہ سے یقینا نوازشریف اور ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچا ہے۔ بھارتی پراپیگنڈہ کے ساتھ ساتھ جب پاکستانی میڈیا بھی نوازشریف کے خلاف چِلاّرہا تھا تون لیگ کے رہنما یقینا دبائو میں آگئے اور فوری جواب دینے کیلئے کوئی لیڈر سامنے نہ آیا۔ صرف پارٹی صدر میاں شہبازشریف جو سندھ میں جلسہ کررہے تھے نوازشریف کی حمایت میں بولے اور انہوں نے کہا کہ نوازشریف جیسا محب وطن اور دبائو اور لالچ کے باوجو دایٹمی دھماکے کرنے والا نوازشریف یہ نہیں کہہ سکتا جو کچھ میڈیا میں کہا جارہا ہے۔ لیکن فوری طور پر عسکری ایجنسیوں نے وزیراعظم سے نیشنل سیکورٹی کونسل بلانے کا مطالبہ کردیا جوکہ اگلے دن منعقد ہوگیا۔ اس اجلاس میں ساری عسکری اور سول حکومتی قیادت نے نوازشریف کے انٹرویو کو گمراہ کن قرار دے دیا۔ گو کہ اس اجلاس نے نوازشریف کو میڈیااور سیاست دانوں کی طرح غدار نہیں قر ار دیا لیکن اس معاملے پر اجلاس ہونے سے ہی نوازشریف کے بارے منفی تاثر پیدا ہوا۔ وزیراعظم نے اگلے روز میڈیا اور اسمبلی میں کہا کہ نوازشریف کا انٹرویو غلط طور پر شائع ہوا ہے۔ لیکن نوازشریف نے اگلے روز احتساب عدالت کے باہر انٹرویو کا وہ حصہ پڑھ کر کہا کہ میں نے کیا غلط کیا ہے۔ نوازشریف کے ایسا کہنے سے ایک دفعہ پھر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔ گو کہ اب کچھ لیگی رہنما نوازشریف کے دفاع میں بول رہے ہیں لیکن معاملہ صاف نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی اجلاس میں کچھ ارکان نے کہا کہ اس بیانیے کے ساتھ ہمیں الیکشن میں مشکلات پیش آئیں گی۔ شہباز شریف کو جو پارٹی صدر اور اگلے انتخابات میں وزیراعظم کے امیدوار ہیں مشکل میں نظر آتے ہیں اور انہوں نے ارکان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ بارے نرم روئیے پر راضی کرینگے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ ہم اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اب اگر نوازشریف کے الفاظ کا یہ مطلب لیا جائے کہ ہم نے یعنی پاکستان نے دہشت گرد بھیجے تو یقینا پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوتی ہے اور ہندوستان کو بین الاقوامی طور پر فائدہ ہوتا ہے ۔ایسے میں نوازشریف کے خلاف غم و غصہ بجا ہے۔ لیکن اگر نوازشریف کا مطلب ہے کہ ہم ان دہشت گردوں کو بارڈ کراس کرنے سے روکنے میں ناکام رہے درحقیقت وہ ان اداروں پر تنقید کررہے ہیں جن کا کام دہشت گردوں کو روکنا تھا۔
نوازشریف کو جس طرح اقتدار سے نکالا گیا عوام کی ایک بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف سے زیادتی کی ہے اور جولائی 2017 سے اب تک نوازشریف کی حمایت کررہی ہے۔ لیکن نوازشریف کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستانی قوم ہندوستان کے معاملے میں بہت جذباتی ہے۔ اگر کسی بات سے ذرا سا شائبہ بھی ہو کہ اس سے ہندوستان کا فائدہ ہوسکتا ہے تو قوم برداشت نہیں کرتی۔ موجودہ معاملے میں بھی اگر کسی طرح یہ ثابت بھی ہوجائے کہ دہشت گردوں کو پاکستان نے بھیجا تھا تو بھی عوام میں سے کوئی اسکو غلط نہ کہے گا۔ اس معاملے میں نوازشریف کو یقینا سیاسی نقصان پہنچا ہے۔ کچھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی جن کو اپنے معاملات کی وجہ سے پارٹی چھوڑنے کیلئے شدید دبائو تھا لیکن عوامی دبائو کی وجہ سے ایسا نہ کرپارہے تھے۔ انکو اب ایک بہانہ مل گیا ہے اور پچھلے ایک ہفتہ میں کئی لوگوں کو لوٹا بنتے دیکھا گیا ہے ۔
پاکستانی سیاست میں یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ جس سے شدید مخالفت ہوجائے فورا ً اس پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنا کر سزاد ینے کا مطالبہ کردیا جاتا ہے۔ اس معاملے پر بھی PTI نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ لیکن ہائی کورٹ نے واپس کردی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آرٹیکل 6 کا مطلب یہ نہیں کہ اگر آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی ہوگئی تو آرٹیکل 6 لگادیں۔ نہ ہی ہر قسم کی غداری پر آرٹیکل 6 لگتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 6 (High Treason ) ریاست سے غداری سے متعلق ہے۔ اس میں ریاست سے غداری (High Treason ) کا مطلب پورے آئین کو منسوخ کرنا یا معطل کرنا ہے جو طاقت کے ذریعے یا کسی غیر آئینی طریقے سے کیا جائے۔ آرٹیکل6 پر عملدرآمد کرنے کا طریقہ کار بھی قانون میں موجود ہے (High Treason Act 1973 ) میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آرٹیکل کے تحت مقدمہ صرف وفاقی حکومت کا نمائندہ در ج کرواسکتا ہے ہر کوئی اٹھ کر عدالت میں یہ مقدمہ درج نہیں کرواسکتا۔
نوازشریف نے انٹرویو میں حملوں والی بات کیوں کی، اس پر مختلف تجزئیے سامنے آرہے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال کر کسی NROکا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ یقینا کامیاب نہیں ہوا بلکہ بیک فائر ہوگیا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ نواز شریف نے بین الاقوامی طاقتوں کو پیغام دیا ہے کہ میں دہشت گردی کے خلاف موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ سخت رویہ رکھتا ہوں شائدکوئی موجودہ حالات سے نکالنے کے لئے مددگار ہو۔ اس کا اثر دیکھنے کیلئے انتظار کرنا ہوگا۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ انکی سیاست ختم ہوچکی ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ انکو تاریخ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کی وجہ سے یا د رکھا جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کہا جائے وہ سول سپریمیسی کیلئے لڑتے ہوئے سیاست سے نکالے گئے۔میرے خیال میں ابھی نوازشریف کی سیاست ختم نہیں ہوئی۔ ن لیگ اس وقت بھی پاکستان کی سب سے مقبول پارٹی ہے اور اگر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی گئی تو تمام رکاوٹوں کے باوجود الیکشن جیت سکتی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں 2002 کے الیکشن میںElectable امیدوار ق لیگ میں چلے گئے تھے ۔ ن لیگ کے ٹکٹ پر آنے والے نئے لوگ ہار گئے تھے۔ اِس وقت یہ صورت حال نہیں ہے۔ اُس وقت عام تاثر یہی تھا کہ نوازشریف فیملی نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی ہے جبکہ اس وقت نوازشریف ڈٹ کر میدان میں کھڑا ہے اور دوسری بات کچھ Electable، 2013 میں بھی PTI میں گئے تھے اور انکی اکثریت جیت نہ سکی تھی کیونکہ PTI کے کارکنوں نے انکو قبول نہ کیا تھا۔ اب بھی جو PTI کے کارکن امیدوار پچھلے 5 سال سے محنت کررہے ہیں انکے اوپر ایک کرپٹ امیدوار بٹھایا جائے گا تو اسکا وہ کیا حشر کریں گے تماشہ دیکھنے والا ہوگا۔