سلطان ٹیپو شہیدؒ ....زندہ کردار
جہاں ہماری تاریخ میںٹیپو شہید جیسے زندہ کرداروںکی بھرمارہے وہیں ہمارے ہاں میر جعفر اور میر صادق جیسے مکروہ کرداروں کی بھی کمی نہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قوم و ملت کا سودا کرنے سے بھی نہیں چوکتے! اپنی تاریخ کے روشن پہلوو¿ںکی پیروی کرنا اور تاریک پہلو و¿ں کی اصلاح کے لیے تگ دو کرنا ہی زندہ قوموں کا شعار ہوا کرتا ہے۔ جو قومیں ایسا کرنے میں پس و پیش کرتی ہیں اُن کی تباہی اور بربادی یقینی ہوا کرتی ہے۔ صد افسوس! کہ ہم آج پس و پیش کی یہی روّش اپنائے ہوئے ہیں۔ہمیں اغیار کی تاریخ اور کارنامے تو قابلِ تقلید معلوم ہوتے ہیں مگر اپنی تاریخ سے ہم ناشناس ہیں۔ 4مئی ٹیپو شہید کا یومِ شہادت ہے۔ ہمیں یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں کے ساتھ پیش آنے والا اندوہ ناک واقعہ تو یاد ہے جبکہ اپنے عظیم جرنیل اور قافلہ¿ حریت کے سالار سلطان ٹیپو شہید کے یومِ شہادت کا ہم میں سے بیشتر کو علم ہی نہیں۔یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں کی قربانی کے اعتراف میںہمارے قومی اخبارات نے اسپیشل ایڈیشن شائع کیے، ٹی وی چینلز نے اسپیشل پروگرامز ترتیب دیے ¾ ملک بھر میں کانفرنسز اور سیمینار منعقد کیے گئے اور سارا مہینہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ¾جو بہت اچھی بات ہے ¾ لیکن کیا اُس مجاہد ِ اسلام کی جدوجہد، قربانی اور شہادت اِس قدر بے وقعت ہے کہ ہمارے اخبارات و رسائل میں تھوڑی سی جگہ اور ٹی وی چینلز پر تھوڑا سا وقت بھی نہ حاصل کرسکے۔ یہ ذہینی غلامی نہیں تو اور کیا ہے ؟کیا ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے۔۔؟؟ایسے میںجب ٹیپو شہید کوبالکل فراموش کر دیا گیا ہے ¾ سرزمینِ حسن ابدال پر ¾ نامی گرامی معالج، سیاسی و سماجی شخصیت ڈاکٹر سکندر حیات خان اور اُن کے فرزند اختر حیات خان المعروف جانی خان صد بار قابلِ تعریف ہیں جن کے ہاں گزشتہ 28 برس سے ہر سال 4 مئی کو ٹیپو شہید کی برسی بڑے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اِس سال بھی 4مئی کو یہ دن منا یا گیا۔ نہایت پروقار تقریب تھی جس کی صدارت وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور جناب شیخ آفتاب احمد نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی سینیٹر طلحہ محمود تھے۔ ٹیپو شہید کی شخصیت ، کردار اور کارناموں پر خصوصی گفتگو کے لیے نامور ماہرِ اقبالیات، معلم اور معروف صحافی و کالمسٹ پروفیسرڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کو مدعو کیا گیا تھا۔ دیگر مقرین میں ماہرِ اقبالیات ماسٹر بشیر احمد، شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، مولٰنا غلام محمد صدیقی ، اشعر حیات خان و غیرہ شامل تھے۔اِس تقریب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ شہیدِ حریت سلطان فتح علی ٹیپو شہید کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے گردو نواح سے ہر مکتبہ فکر کے لوگ کثیر تعداد میں مدعو کیے جاتے ہیں آئیے آج تاریخ کے اوراق اُلٹ کے اپنے اِس عظیم ہیرو کی قربانی اور شخصیت کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹیپو شہید کے والد حیدر علی کی دو شادیاں تھیں۔ دوسری شادی گورنر معین الدین خان کی بیٹی فاطمہ بیگم المعروف فخرالنساءسے ہوئی۔ کافی عرصہ اولاد نہ ہوئی تو بیگم فخرالنساءکے ساتھ حیدر علی نے ارکوٹ کے مشہور ولی اللہ حضرت ٹیپو مستان کی درگاہ پر حاضری دی اور صالح اولاد کی پیدائش کے لیے دعا کی۔ دعا قبول ہوئی اور1750 ءمیںایک بیٹا عطا ہوا جس کا نام اپنے دادا کے نام پر فتح علی رکھا گیا ۔ اُنہی ولی اللہ کی نسبت سے آپ کو” ٹیپو مستان“ پکارا جاتا تھا۔ فتح علی جب بادشاہ بنے تو ٹیپو مستان سے ٹیپو سلطان مشہور ہو گئے۔ ٹیپونے جس دور میں حکومت کی باگ ڈورسنبھالی ¾دُنیا میں یہ ایک عجیب دور تھا۔ پرتگال، سپین ، ہالینڈ، فرانس جرمنی اور برطانیہ جیسی طاقتیں ایشیا، شمالی و جنوبی امریکہ، افریقہ، کینیڈا وغیرہ کو اپنی کالونیاں بنا رہے تھے۔اُسی زمانے میں ہی مشہور ڈکٹیٹر نپولین بونا پارٹ برسرِ اقتدار آیا۔ اُس سے ٹیپو کی خط و کتابت بھی رہی۔یہ وہی دور تھا جب انقلابِ فرانس آیا۔ اُدھر امریکہ جسے اُس وقت ”نئی دُنیا“ کہا جاتا تھا ¾جارج واشنگٹن کی قیادت میں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔امریکہ تک حیدر علی اور اُن کے شیر دل بیٹے ٹیپو کی جرا¿ت ،بہادری اور کارناموںکے چرچے پہنچ چکے تھے۔ جن کا تذکرہ جارج واشنگٹن کی ایک تحریر میں بھی ملتا ہے۔ برطانیہ اپنی تمام تر توجہات ہندوستان پر مرکوز کیے ہوئے تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی برِ صغیر میں اپنے پنجے گاڑ رہی تھی۔مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔بنگال میں میر جعفر کی غداری کے سبب نوجوان سپہ سالار نواب سراج الدّولہ شہید ہو چکے تھے۔ پنجاب میں سکھ بھی کمزور پڑ چکے تھے۔ ہندوستان کے تمام حکمران اور نواب بزدل بھی تھے اور خوابِ غفلت میں بھی پڑے ہوئے تھے۔ ایسے میں واحد ٹیپوہی تھے جوبیدار تھے۔ انہوں نے اپنی بیداری کا کچھ ایسے ثبوت دیا کہ تاجِ برطانیہ بھی اُس کا معترف ہوا۔
ٹیپو شہید کی مذہب دوستی، عشقِ رسول، جذبہ¿ حریت اورعلمی قابلیت سے انکار ممکن نہیں۔آپ زہد و تقویٰ کے بھی بادشاہ تھے آپ نے ”مسجدِ اعلیٰ“ کی تعمیر کرائی۔ مسجد کے افتتاح پر تجویز آئی کہ پہلی نماز کوئی صاحبِ ترتیب (صاحبِ ترتیب اُس نمازی کو کہا جاتا ہے جس کی ہوش سنبھالنے کے بعد کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو) پڑھائے گا۔ مجلس میں موجودتمام افراد جب خاموش ہو گئے تو ٹیپو نے فرمایا الحمد للہ میں والدین کی تربیت اور اساتذہ کے فضل و کمال سے صاحبِ ترتیب ہوں۔چنانچہ مسجدِ اعلیٰ میںپہلی نماز ٹیپو شہید کی امامت میں ادا کی گئی۔ ٹیپو مذہبی رواداری کے اِس حد تک قائل تھے کہ مالابار پر قبضہ کے دوران ٹیپو کے کچھ سپاہیوں نے ایک مندر کو آگ لگادی۔ آپ نے اِس کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کو نہ صرف سزا دی بلکہ کوتوالِ شہر کو حکم دیاکہ شہر کی کمائی سے مند ردوبارہ تعمیر کیا جائے۔رعایا تک انصاف کی فراہمی ،جنگی قابلیت ،شجاعت و تدبیر،ایجادات کا شوق ٹیپو شہید کے وہ اوصاف ہیں جن کے انگریز بھی معترف تھے۔
1799 ءکو سرنگا پٹم کے قلعے کے باہر یہ مردِ حر تاجِ برطانیہ کے خلاف برسرِ پیکار تھا کہ اپنوں کی غداری کے سبب ایک سازش کا شکار ہو کر جامِ شہادت نوش کر گیا۔ لیکن شہادت کے بعد بھی انگریز سپاہیوں اور افسران پر اِس بہادر جرنیل کی دہشت کا عالم یہ تھا کہ وہ آپ کے جسدِ خاکی کے قریب آنے کی جرا¿ت نہیں کررہے تھے۔گویا ٹیپو کی زندگی اور موت دونوںاُن کے اِس مشہورِ زمانہ مقولے”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“ کی عکاسی کرتی ہیں۔ٹیپو شہیدکے اوصاف اور کارنامے اِس قدر زیادہ ہیں کہ اِس مختصر مضمون مین اُن کا احاطہ کرنا قطعاً ممکن نہیں۔شاعرِ مشرق ، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے فارسی اور اردو کلام میں کئی مقامات پر مسلمانانِ ہند کے اِس عظیم مجاہد اور ہیرو کو شاندارالفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہِ اقبال نے جس مردِ کامل اور مردِ مومن کا تصور پیش کیا ہے ٹیپو شہید اُس پر کما حقہ¾ پورے اترتے ہیں گویا کسی نے اقبال کے مردِ مومن کو دیکھنا ہو تو وہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کا مطالعہ کرے۔ خداوندکریم ٹیپو شہید کے مرقد پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے اور ہمیں اُن کی زندگی اور فرامین کو یاد کرنے اور اُن سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ¾ثم آمین)۔