کچھ روز قبل گلوکارہ میشا شفیع نے معروف گلوکار علی ظفر پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تو سوشل میڈیا پر طوفان پرپا ہو گیا۔یہاں تک کہ بڑے بڑے ٹاک شوز جن میں کئی بڑے سیاسی و عوامی مسائل پر بات کی جاتی ہے۔ان ٹاک شوز کا بھی موضوع بحث ’ میشا شفیع کا علی ظفر پر ہراساں کرنے کا الزام ‘ تھا۔کچھ صحافیوں نے اس مو ضو ع پر اتنی دلچسپی لیتے ہوئے تبصرے کیے۔کہ شاہد ایسے تبصرے قصور میں قتل ہونے والی ننھی زینب سے متعلق بھی نہیں کیے گئے ہوں گے۔جس کے ساتھ دردناک طریقے سے زیادتی کی گئی اور بعد ازاں قتل کر کے لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی۔کاش میشا شفیع اس وقت اپنے ساتھ زیادتی ہونے کا اعلان کر دیتی تو شاہد ہمارے دلوں سے ننھی زینب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کچھ دکھ کم ہو جاتا۔ اب میشا شفیع نے کئی دن کی خاموشی کے بعد اپنا الزام ایک بار پھر دہرایا ہے....
میشا شفیع کے الزامات کے بعد کئی اور لڑکیوں نے بھی می ٹو مہم کی ممبر شپ حاصل کر لی تھی۔ میرا مطلب ہے کہ کچھ اور لڑکیوں نے بھی یہ انکشاف کیا کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔اور حیران کن بات یہ ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرنے والی لڑکیوں کا تعلق بھی شوبز انڈسٹری سے ہے۔میرے خیال سے تمام شعبے قابل احترام ہیں۔لیکن می ٹو مہم کو ایک ایسے شعبے کی خواتین نے تقویت دی۔جہاں مرد کی بانہوں میں بانہیں ڈالنا کوئی بُری بات نہیں سمجھی جاتی۔نہ ہی چھوٹے چھوٹے کپڑے پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے۔اگر ایسے شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی ہراساں کیا جانے کا انکشاف کریں گی تو پھر یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ گلی محلوں میں رہنے والی عام عورت کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہو گا؟
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2017 ءکے دوران 1465 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔جن میں سے نصف سے زائد نو عمر بچیاں تھیں۔اور کئی ایسے کیسز بھی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے۔وہ تمام خواتین جو بولنے میںا ٓزاد ہیں ۔اور می ٹو مہم کو پروان چڑھانے میں اپنا عملی کردار ادا کر رہی ہیں ۔کیا انہوں نے کبھی سوچا ہے کہ ایک عام عورت جسے ہراساں کیا گیا ہو۔وہ بھی ایسے آواز بلند کر سکتی ہے؟ یا اگر ایک عام عورت اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتی کے لیے آواز بلند کر بھی لے تو اسے کن نتائج کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے؟۔بد قسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے میں جنم لے رہے ہیں جہاں لڑکیوں کو رشتے سے انکار پر تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔مجھے کوہاٹ میں قتل ہونے والی عاصمہ کی زندگی کی وہ آخری چند سانسیں کبھی نہیں بھولیں گی۔جب ایک طرف اس کے جسم سے روح نکل رہی تھی اور دوسری طرف وہ اپنے قاتل کا نام بتا کر اس معاشرے کے منہ پر تماچا مار رہی تھی۔کا ش عاصمہ کو بھی کسی می ٹو مہم کی خبر ہوتی تو وہ اسی وقت ایک بیان ڈال دیتی کہ مجھے فلاں بندے کی طرف سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔اور پھر اس کے ساتھ جو ہوتا وہ اس کے جسم میں گولیاں اتارنے سے بڑھ کر ہوتا۔
قارئین کرام ! میں اس بات کے حق میں ہوں کہ اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو اس کے مجرم کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئیے۔لیکن یہ سب خواتین کے ایک خاص ٹولے کے لیے نہیں ہونا چاہئیے۔وہ تمام خواتین جو بولنے میںا ٓزاد ہیں۔اور اپنا دفاع بھی بخوبی کر سکتی ہیں۔ان کو عام عورت کے حق کے لیے بھی کوئی مہم چلانی چاہئیے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اونچے طبقے کی ا ٓزاد عورت اپنی شہرت،اپنے اونچے مقام کے حصول کی خاطر عام عورت کا حق مار رہی ہے۔اونچے طبقے کی عورت کے ساتھ اگر کوئی اونچی آواز میں بھی بات کر رہا ہے تو وہ اس پر ہراساں کرنے کا الزا م لگا دے گی۔ایسے میں وہ عورت جس کے ساتھ واقعی ظلم وزیادتی ہو رہی ہے وہ جب’ ہراساں‘ کا لفظ اپنے لیے استعمال کرے گی تو وہ بہت بے معنی سا لگے گا۔اگر شوبز کی خواتین بھی مردوں کے ساتھ خود کو غیر محفوظ سجھتی ہیں تو پھر یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ عام عورت کے ساتھ کتنا ظلم ہوتا ہو گا۔ہراسمنٹ کے ایشو کو عام کر کے اور می ٹو جیسی مہم کو پروان چڑھانے سے عورت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ایسا لگتا ہے کہ می ٹو بس ایک رحجان بن گیا ہے۔اور آزاد عورت اس کا استعمال کر رہی ہے۔عورت کی حفاظت کے لیے ہمیں می ٹو کی مہم کو نہیں بلکہ ہراسمنٹ کے ایشو کو اولیت دینی ہو گی۔اور اس کام میں سب سے بہتر اور اہم کردار وہ خواتین ادا کر سکتی ہیں جو بولنے میں آزاد ہیں۔اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہراسمنٹ کے ایشو کے سد باب کے لیے مکمل حکمت عملی بنانا ہو گی۔اور اس کے لیے ضروری ہے کہ می ٹو کا راگ الاپنے والوں اور می ٹو کی مہم کو اجاگر کرنے کی بجائے اصل موضوع یعنی کہ ہراسمنٹ کے ایشو کو اجاگر کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024