بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی
انتخابات میں سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس اتحاد نے واضح اکثریت حاصل کرلی اور من موہن سنگھ، جو سابقہ وزیر خزانہ تھے، وزیر اعظم بن گئے۔ یہ حکومت تمام پیشین گوئیوں کے برخلاف دس سال قائم رہی۔ اس عرصے میں بی جے پی اور آر ایس ایس خود احتسابی کے عمل سے گزرتے رہے۔ ناکامی کے اسباب اور زمہ داری کا تعین کرنے پر زبردست بحثیں ہوتی رہیں۔ وقت آگیا تھا کہ نئی قیادت کو سامنے لایا جائے اور قوم پرستی (ہندوتوا) کا جوش و جذبہ جو معاشی ترقی کے نعرے میں گم ہوگیا تھا اسے ازسر نو بلند کیا جائے اور ایسی قیادت کیساتھ جسکی اس نعرے سے وابستگی مسلمہ ہو۔ واجپائی عمر کی طوالت کے سبب گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ ایڈوانی نے 2009 کے انتخابات میں بی جے پی کی قیادت کی لیکن ناکام رہے۔ انکی وزیر اعظم بننے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ رام مندر کی کہانی نے انکے سیاسی ستارے کو چمکایا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے میانہ روی کا مظاہرہ کیا جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے شدت پسندوں کو منظور نہ تھا اور اس شکست کے بعد وہ انہیں فارغ کرنے کا تہیہ کرچکے تھے۔ بی جے پی کے پرانے قائدین مرلی منوہر جوشی، سشما سوراج اور جسونت سنگھ راستے سے ہٹادئیے گئے تاکہ ایک نئی سیاسی جدوجہد کی ابتداءکی جاسکے۔
اس نئی کہانی کا پلاٹ ہندوتواکا احیا اور رام مندر کی مرکزی حیثیت پر مبنی ہے اور اسکے تین بڑے کردار نریندر مودی، امیت شاہ اور ادتیا ناتھ ہیں۔ 2014 کے انتخابات کیلئے بی جے پی نے پرانے قائدین کی مخالفت کے باوجود مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بناکر ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث شخص کو یہ اعزاز بخش کر پارٹی نے کھلا پیغام دے دیا کہ آئندہ انتخابات ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر لڑے جائینگے۔ امیت شاہ بچپن سے آر ایس ایس کا رضاکار رہا ہے۔ اسکی پیدائش (1964) ممبئی کی ہے لیکن گجراتی بنیوں کے خاندان سے تعلق ہے۔ مودی سے اسکی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ آر ایس ایس کا پرچارک تھا۔ دونوں نے تقریباً ایک ساتھ بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ دونوں شروع سے ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں۔ امیت، مودی کی گجرات حکومت میں کئی بار وزیر رہا۔ اس کا سیاسی مستقبل اس وقت اندیشوں کا شکار ہوگیا جب وہ 2010 میں قتل کے مقدمات میں گرفتار ہوا اور ضمانت پر رہائی کے باوجود ریاست بدر کردیا گیا۔ بالآخر 2012 میں سپریم کورٹ سے اسکی ضمانت منطور ہونے کے بعد وہ دوبارہ گجرات اسمبلی کا ممبر منتخب ہوگیا۔
مودی کی نامزدگی کے بعد وہ دہلی منتقل ہوگیا اور اس کو اتر پردیش میں انتخابی مہم کا انچارج بنادیا گیا۔ ادتیا ناتھ کیساتھ مل کر اس نے اسقدر موثر مہم چلائی کہ بی جے پی ایک تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ پارٹی نے اتر پردیش کی 80 میں سے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے ساتھ ہی سارے بھارت میں بی جے پی نے 543 میں سے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کا سہرا امیت شاہ کے سر پر سجایا گیا۔ اسکی خدمات کے اعتراف میں پارٹی نے انتخابات کے کچھ دنوں بعد امیت شاہ کو پارٹی کا صدر منتخب کرلیا۔ یہ عہدہ پچھلے چار سال سے اسکے پاس ہے۔ 2017 میں امیت شاہ نے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی جب اتر پردیش کی اسمبلی کے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ 403 میں سے 325 نشستوں پر اسکے امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی میں کلیدی کردار یوگی ادتیا ناتھ کا تھا جسے بعد ازاں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بھی منتخب کرلیا گیا۔
یوں چند عام پس منظر کے حامل افراد نے سو سال پہلے جس تحریک کی بنیاد رکھی تھی اور جو اپنے وجود کے موقعے پر اجنبیت اور ناتوانی کی درد بھری تصویر تھی، وہ اب سارے بھارت پر حکمرانی کر رہی ہے۔ ہرچند کہ اس تحریک کی ترکیب میں تنطیم، نظم و ضبط اور قربانی کے اصول کار فرما رہے ہیں اور اسکے بڑے پرچارک سادہ اور فقیرانہ طرز حیات کے مالک رہے ہیں، اسکی تعمیر میں ’ہندو قومیت‘ کا افسانہ ایک ’صورتِ خرابی‘ کی شکل میں موجود رہا ہے۔ اور یہ سب سے بڑھ کر مسلمان دشمنی پر مبنی ہے۔ اس تحریک کا اصل چہرہ فاشزم کا پرتو ہے۔ اس سیریز میں ہم تفصیل کیساتھ اس تحریک کے اکابرین کی یورپ میں اٹھنے والی قوم پرستی اور فاشزم کی تحریکوں سے خصوصی دلچسپی، گہرے روابط اور مطالعہ کا ذکر کرچکے ہیں۔ گولوالکر تو جرمن قوم پرستی سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ ہٹلر کے ان اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا تھا جو اس نے یہودیوں کو تیغ زن کرکے اپنی نسل کی حفاظت کیلئے اٹھائے تھے اور اس بات کا متمنی تھا کہ اس طرح کا کام ہندوﺅں کو اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، کیساتھ کرنا ہوگا اگر وہ اپنی نسل کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
بانیان تحریک کی سوچ کو یہ کہہ کر رد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ ایک انتہا پسند اقلیت کی ترجمان ہے اور سیکولر بھارت کی بنیاد جو آئین ہند میں لکھ دی گئی ہے‘ وہ اس طرح کی سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دیگی۔ ستر سال کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ اقلیتی سوچ بالآخر سارے بھارت پر راج کرررہی ہے۔ آئین ہند موجود ہے لیکن اسکی موجودگی میں بابری مسجد کو اس تحریک کے اکابرین نے جس میں ایڈوانی بھی شامل تھے ‘دن کی روشنی میں شہید کردیا۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا کام تھا جو باقائدہ منصوبہ بندی کے زریعے انجام دیا گیا۔ بھارتی مورخ سومیت سرکار کا کہنا ہے کہ چھ دسمبر 1992 نے بھارت کی سیکولر بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ سنگھ پریوار نے جس بہیمانہ انداز اور ناقابل یقین پیمانے پر ہندو قوم پرستی کی آگ کو بھڑکایا ہے اس نے تقسیم ہند کے بعد شدید ترین فسادات کو جنم دیا ہے۔ اسکے بعد بھارتی ریاست کا سیکولر اور جمہوری مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔اس حادثے کے 24 سال بعد، سنگھ پریوار سارے بھارت کا مالک ہے۔ تمام اقلیتیں خوف اور دہشت کی کیفیت سے گزر رہی ہیں۔ مسلمانوں کو اور نچلی ذات کے ہندوو¿ں کو بلا روک ٹوک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غنڈے اور بدمعاش جب چاہیں ان کو قتل کردیں اور انکی عزتوں کو لوٹ لیں۔ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں انکی سرپرستی کرتی ہیںیا ان کےخلاف قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ گاو¿ رکھشا، گھر واپسی اور لو جہاد (Love Jihad) کے نام پر ظلم اور بربریت کی لرزا دینے والی کہانیاں روز بھارتی اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ اس ننگے فاشزم سے وہ ہندو بھی محفوظ نہیں ہیں جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور اس ظلم و ستم پر آواز بلند کرررہے ہیں۔ آئین ہند ایک امتحان سے گزر رہا ہے۔ یہ اعلیٰ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ اس ظلم اور بربریت کا نوٹس لیں اور قانون توڑنے والے ہاتھوں کو سختی سے روک دیں ورنہ انتہا پسند سوچ جو ابھی غیر رسمی طور پر معاشرے کو متاثر کررہی ہے اسکے حوصلے اتنے بلند ہو سکتے ہیں کہ وہ آئین کو بدل ڈالے، جو فاشزم کی ارتقاءمیں ایک منزل ہے۔ دوسری جانب، آر ایس ایس کے بانیان کی آئین ہندسے شکائتیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں، گو اس کیلئے مطلوبہ اکثریت ابھی اسے حاصل نہیں ہے۔
پاکستانیوں کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی کی اس ہمہ گیر کامیابی میں سوچنے کا بہت سامان ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ جو تقسیم ہند کی بنیاد تھا وہ ختم ہوگیا اور اسکی ضرورت باقی نہیں رہی‘ وہ غلطی پرہیں۔ درحقیقت ہندو قوم پرستی کی اتنے وسیع پیمانے پر پذیرائی اور مسلمانوں کا آئے دن اسکے غیظ و غضب کا شکار ہونا‘اس کا واضح ثبوت ہے کہ دو قومی نظریہ حقائق پر مبنی تھا اور اسکی حفاظت آج بھی اتنی ضروری ہے جتنی تقسیم ہند کے موقع پر تھی۔ (ختم شد)