نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن کون؟
12 مئی 2018 کو روزنامہ ڈان میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے شائع ہونے والے انٹرویو کی ” کوکھ “سے جنم لینے والا بحران تاحال ختم نہیں ہوا ہے۔ نواز شرےف کے سےاسی مخالفےن انٹروےو کے مندجات پڑھے بغےر ان پر تےر اندازی کر رہے ہےں اس انٹرویو میں میاں نواز شرےف سے پوچھا گیا کہ” انھیں پبلک آفس سے نکالنے کی وجہ کیا تھی؟ توانھوں نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے کی بجائے گفتگو کا رخ خارجہ پالیسی اور سیکورٹی امور کی طرف موڑ دیا اور کہا کہ ” ہم نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔قربانیاں دینے کے باوجود ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جا رہا۔اسکے برعکس افغانستان کا بیانیہ قبول کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس معاملہ کو ضرور دیکھنا ہو گا“۔ گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” شدت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں organizations are active ( militant کیا ہمیں انہیں اجازت دینی چاہیے کہ وہ سرحد عبور کر کے ممبئی میں ایک سو پچاس افراد کو ہلاک کر دیں۔ اس معاملہ کو مجھ پر واضح کریں۔ ہم مقدمہ کیوں مکمل نہیں کر سکے؟“۔
یہ وہ الفاظ ہیں جن سے نواز شریف کا ہر مخالف اپنے اپنے مطالب نکال کر تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔ کوئی ان کی حب الوطنی کو چیلنج کر رہا ہے اور کوئی ان پر ”غداری“ کا فتویٰ لگا رہا ہے۔ نواز شریف مخالف قوتوں کو ان کا ”متنازعہ“ انٹرویو مل گیا ہے جس کی آڑ میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی تمام خدمات کو پسِ پشت ڈال کر انھیں رگیدنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرِ دست میاں نواز شریف کیخلاف اتنا پراپیگنڈہ کیا جا چکا ہے کہ اس سے انکی پارٹی کے ارکان بھی متاثر نظر آتے ہیں اور وہ تذبذب کا شکار ہیں ۔ اس سلسلے میں دو روز قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاﺅس میں زیر صدارت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی منعقد ہوا جس میں پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف نے خصوصی دعوت پر شرکت کی جس میں انھوں نے سابق وزےر اعظم محمد نواز شریف کے حالیہ انٹرویو پر شدےد ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” جس شخص نے بھی ےہ انٹروےو کروایا ہے اس نے مسلم لےگ (ن) کے ساتھ زیادتی کی ہے اور وہ نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ قبل ازےں سرل المیڈا ہی کی وجہ سے ہی ڈان لیکس کا تنازعہ کھڑا ہوا ۔ مسلم لےگ (ن) کے قائد محمد نواز شرےف کے بیان پر ہر فورم پر بات کی جاچکی ہے، اس حوالے سے پارٹی پالیسی وضع کی جائے گی ، پارلےمانی پارٹی کے ارکان کے تحفظات نواز شریف کے سامنے رکھوں گا “۔پارلےمانی پارٹی کے ارکان نے اجلاس میں پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے حالیہ بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اظہار خیال کیا اور پارٹی صدر میاں شہباز شریف کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے کہا کہ نواز شریف کے حالیہ بیان کے بعد سیاسی ماحول سازگار نہیں رہا، ہمیں انتخابی مہم میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہذا صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے مےاں شہباز شریف پر زور دیا کہ کہ وہ اس سلسلے میں رہنمائی کریں کہ موجودہ حالات میں کس طرح میاں نواز شریف کے بیانیہ کا دفاع کیا جا سکتا ہے جس پرمیاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ” نواز شریف ہم سب کے قائد ہیں اور ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے ، ہم سب محب وطن ہیں ۔ میاں نواز شریف وہ لیڈر ہےں جنھوں نے عالمی دباﺅ کے باوجود چھ ایٹمی دھماکے کئے اور پانچ ارب ڈالر کی امداد کی پیش کش کو مسترد کر دیا ،نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن)نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور آج ملک اندھیروں سے نکل روشنی کی طرف سفر کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے عوام سے 2013 کے انتخابات میں کئے گئے وعدوں کو پورا کر دکھایا ہے“ ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عوام کی طاقت سے 2018 ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن ایک بار پھر کامیابی حاصل کرے گی ۔ میاں شہباز شریف نے پارلیمانی پارٹی کے ارکان کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ ان کے جذبات سے پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کو آگاہ کریں گے چونکہ ان کے بیان پر ہر فورم پر بات کی جاچکی ہے، لہذا اس حوالے سے پارٹی پالیسی وضع کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ آپ لوگ بھی ان سے بات کریں۔ میاں نواز شریف کی جانب سے انھیں مثبت جواب موصول ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی کارکردگی ہی اس کا سب سے بڑا دفاع ہے اور ہم آئندہ انتخابات اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی لڑیں گے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پاور ڈویژن سردار اویس لغاری اور وزیر مملکت عبدالرحمن کانجو نے کہا کہ ہم آزاد الیکشن لڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے اور آج بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نواز شریف کے حالیہ بیانیے میں نرمی لانے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں ایک رکن نے میاں شہباز شریف سے پوچھا کہ نواز شریف کا انٹرویو کس نے کروایا جس پر انہوں نے انٹرویو کروانے والے شخص کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے۔ اجلاس میں بعض ارکان نے نوازشریف کا بیان نامناسب قرار دیدیا تاہم چار پانچ ارکان قومی اسمبلی کے سوا تمام ارکان نے نواز شریف کے بیان کی مکمل تائید و حمایت کی۔ نواز شریف کے بیان کی تائید نہ کرنے والوں میں عاشق گوپانگ، شیخ فیاض الدین، عبدالرحمان کانجو اور شفقت بلوچ شامل ہیں۔ ان ہی ارکان قومی اسمبلی نے کہا کہ ختم نبوت کے ایشو پر پہلی ہی پارٹی کو نقصان پہنچ چکا ہے۔
اب نواز شریف کے بیان سے پارٹی کو مزید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے انھیں ڈرایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن نہیں چھوڑیں گے تو ان کے خلاف مقدمات بنائے جائےں گے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے ممبئی حملہ اور نان سٹیٹ ایکٹرز (غیر ریاستی عناصر) کے حوالے سے دیئے گئے انٹرویو کے حوالے سے ملکی سیاست میں جو ہنگامہ برپا ہے اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بیشتر لوگوں نے انٹرویو پڑھا ہی نہیں اور سنی سنائی باتوں پر تبصرے کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ بار بار استفسار کر رہے ہیں کہ انھوں نے کون سا ایسا جرم کیا ہے کہ ان پر غداری جیسا سنگین الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ انکے انٹرویو کے مندرجات پڑھے بغیر ”غداری“ کے فتوے لگانے والے حقائق سے آگاہ ہی نہیں۔ اس وقت ملکی سیاست کا سب سے بڑا ایشو میاں نواز شریف کا انٹرویو بن گیا ہے جس کے قومی سلامتی کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ ایک طرف میاں شہباز شریف میاں نواز شریف کے انٹرویو میں ”نان سٹیٹ ایکٹرز“ اور ”ممبئی حملہ“ کے تناظر میں جو کچھ کہا ہے اس کا بھرپور دفاع کررہے ہیں۔ تو دوسری طرف وہ اس شخص کو بھی مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن قرار دے رہے ہیں جس نے یہ انٹرویو کرانے میں ” سہولت کار“ کا کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے اس معاملے پر ”مٹی“ ڈالنے کی کوشش بھی کی ہے۔ انھوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور پھر ان سے ہونےوالی گفتگو کے تناظر میں سینئر اخبار نویسوں اور اینکر پرسنز سے پریس ٹاک کی جس کو مصلحتاً ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا۔
تاحال معلوم نہیں ہو سکا کہ وزیراعظم کی پریس ٹاک ٹیلی کاسٹ کےوں نہےں کی گئی وفاقی وزےر اطلاعات و نشرےات کا موقف ہے کہ اس انٹروےو کو ٹےلی کاسٹ نہ کرنا ان کا فےصلہ تھا ۔ نواز شرےف کا انٹرویو سول ملٹری تعلقات کار پر اثرانداز ہو سکتا تھا لےکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر اس انٹرویو کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان شدید نوعیت کا تناﺅ پیدا نہیں ہونے دیا ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ترجمان نے انٹرویو کے متنازعہ مندرجات کی تردید کر دی ہے اور کہا ہے کہ ان کا انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے میاں نواز شریف جو اس انٹرویو کے مثبت و منفی اثرات سے بخوبی آگاہ ہےں وہ اس بات پر مصر ہیں کہ انھوں نے کون سی غلط بات کہی ہے جس پر انھیں مطعون کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے قومی کمیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے اور کہا ہے کہ” اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا“۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا جو اعلامےہ جاری ہوا اس میں بھی کہیں نواز شریف کا ذکر نہیں ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے ممبئی حملوں سے متعلق بیان اور الزامات کو متفقہ طور پر مسترد کیا ہے اور کہا کہ ٹھوس حقائق کے برعکس بیان کو پیش کرنا بدقسمتی ہے،لیکن اس روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کو نواز شریف کے خلاف بیان کے طور پر استعمال کیا جس کے بعد مےاں نواز شرےف نے بھی قومی سلامتی کمےٹی کے اعلامےہ کو نہ صرف مسترد کردےا بلکہ اسے تکلےف دہ ، افسوس ناک اور غلط فہمی پر مبنی قرار دےا سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا ممبئی حملہ کے تناظرمیں بیان بڑی حد تک صورتحال کی وضاحت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی سرکار کی اس کیس کی تہ تک پہنچنے میں عدم دلچسپی کے باعث کوئی پیش رفت نہیںہو سکی ۔ ممبئی حملہ کیس کو دنیا میں کسی عدالتی یا انصاف کی بنیادوں پرنہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر "Pakistan bashing " کا ذریعہ بنا ےا گیا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پارلیمنٹ میں بھی میاں نواز شریف کا بھرپور دفاع کر چکے ہیں۔ اسی طرح میاں شہباز شریف بھی انکے انٹرویو کے بارے میں وضاحت کر چکے ہیں۔ میاں نواز شریف کے انٹرویو کے حوالے سے اٹھنے والی دھول اسی صورت میں بیٹھ سکتی ہے کہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قومی کمیشن قائم کر دیا جائے اور جو ممالک اس واقعے کی آڑ میں وطن عزیز کے خلاف ریشہ دوانیاں کررہے ہےں انہےں خاموش کراےا جا سکے۔