اتوار ‘ 4 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 20 مئی 2018ء
قائد اعظم کی مسلم لیگ بھی شروع میں تانگہ پارٹی تھی۔ عمران خان
خدا جانے ہمارے بونے سیاستدانوں کو بھی اپنا موازنہ قائداعظم سے کرنے کی بیماری کیوں لاحق ہو جاتی ہے۔ جس سیاستدان کو اپنے اردگرد چند لوگ نظرآتے ہیں وہ خود کو قائداعظم سے بڑا نہیں تو کم از کم ان کے ہم پلہ ضرور سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ ہمارے تمام سیاستدان شروع سے لے کر آج تک جو بھی ہوئے ہیں وہ قائد اعظم کی سیاست تو کجا ان کی تعلیمات، افکار اور نظریات کی ابجد تک کو نہیں چُھو سکے۔ قائد کے اردگرد نہ تو جاہلوں کا ٹولہ تھا نہ چاپلوسوں کا۔ وہ خود ایماندار تھے ان کے اردگرد بھی دیانتدار لوگ تھے۔ اگر قائد کے ساتھ ہمارے سیاستدانوں کے اردگرد موجود لوگوں کی طرح کے لوگ ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہ ہوتا۔ رہی بات تانگہ پارٹی کی تو یہ عمران خان کی تاریخ سے عدم واقفیت ہے یا وہ حسب عادت خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہوئے ایسے جملے بول دیتے ہیں۔ مسلم لیگ اپنے قیام کے وقت سے ہی برصغیر کہہ لیں یا غلام ہندوستان کی مسلمانوں کی سب سے بڑی پارٹی تھی اور رہی۔ کانگریس کے مقابلہ میں یوں ثابت قدم رہنا خالہ جی کا گھر نہ تھا۔ بڑے بڑے مسلم اکابرین زعما اور عام مسلمان اس جماعت سے منسلک تھے۔ چند نیشلسٹ قوم پرست علما اور سیاستدانوں اور مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر جو کانگریس اور گاندھی جی کی محبت میں غرق تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ہمیشہ مسلم لیگ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کا ساتھ دیا۔ ہمارے سیاستدان خدا را اپنا موازنہ جس سے چاہے کر لیا کریں مثال جو چاہے دے دیا کریں کم از کم قائد اعظم کو اس معاملے میں دُور ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ یہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ عوام کبھی ایسی بات کو پسند نہیں کرتے۔
٭........٭........٭
شہزادہ محمد بن سلمان مکمل صحتیاب ہیں۔ سعودی ذرائع
کچھ دنوں سے اِدھر اُدھر کے مخالفین سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے سے بے پرکی اُڑا رہے تھے۔ کچھ عرصہ قبل غیر ملکی اخبارات نے خبر دی تھی کہ سعودی شاہی محل کے قریب ایک ڈرون حملہ ہوا ہے۔
چند دن قبل یہ خبرگردش کرنے لگی کہ اس ڈرون حملے میں شہزادہ محمد بن سلمان بھی زخمی ہوئے ہیں جبھی تو نظر نہیںآ رہے۔ بس اسکے بعد نت نئی افواہیں جنم لینے لگیں۔ کوئی اس حملے کی وجہ شہزادہ کی سعودی عرب میں اصلاحات سے جوڑنے لگا کسی کو یہ ناراض شہزادوں کی کارستانی نظر آنے لگی جن سے اربوں کھربوں روپے زبردستی وصول کئے گئے۔ سچ کیا ہے اس پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ اسی گومگو کیفیت میں گزشتہ روز اخبارات میں اور چینلز پر شہزادہ محمدبن سلمان کو مختلف عرب ممالک کے شہزادوں ، مصری صدر اور بحرین کے شاہ کے ساتھ خوش گپیاں کرتے دکھایا گیا اور سعودی ذرائع نے اطلاع دی کہ شہزادہ محمدسلمان مکمل صحتیاب ہیں اور اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس خبر کے بعد سعودی عرب میں گڑبڑ یا افراتفری کی خواہش رکھنے والے دانشوروں کے منہ لٹک گئے۔
اس کے علاوہ شہزادہ محمد بن سلمان نے جدہ میں علما اور دیگر اراکین سلطنت کے ساتھ افطار بھی کیا۔ اس خبر سے سعودی عرب میں نرم معاشرہ کی کوششوں سے خوش افراد کو تسلی ہو گئی کہ شہزادہ کی اصلاحی کوششوں کے رول بیک ہونے کا اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
رمضان المبارک میں مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ۔
ہر سال رمضان آتا ہے۔ حکومت ہر سال منافع خوروں کو نکیل ڈالنے کی پریکٹس کرتی ہے مگر افسوس کہ ہر سال یہ پریکٹس ناکام ثابت ہوتی ہے اور منافع خور دونوں ہاتھوں سے سال بھر کا منافع اس ایک ماہ میں عوام کی جیبوں سے نکال کر اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں۔ لوگ بے چارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس سال بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل کراچی تا پشاور بلند بانگ دعوے کئے گئے۔ منافع خوروں کو لگام ڈالنے کے اعلانات کے باوجود یہ عوام کا خون چوسنے والے پہلے کی طرح بھرپور تیاری کر کے عوام پر ٹوٹ پڑے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کی قیمت میں چاند رات سے آج تیسرے روز تک 50 روپے فی کلو سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ اب تو لوگوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حکمرانوں سے سبزیوں اور پھلوں پر بھی سبسڈی دینے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی حال لوڈشیڈنگ کا ہے بجلی کی بھرپور پیدوار کے دعوﺅں کے برعکس بجلی کی آنیاں جانیاں بھی عروج پر ہیں وہ دن دیکھتی ہے نا رات جب جی چاہتا ہے یہ گئی وہ گئی۔ اب تو لوگ لازمی ضروریات میں سے کٹوتی کر کے یو پی ایس خرید کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں۔ خدا جانے وہ 2018 ءمیں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کہاںگئے۔ کیا بجلی کو حکمرانوں کے یہ دعوے پسند نہیں آئے جو اب مسلسل حکومتی دعوﺅں کی خلاف ورزی کو اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہے۔ اس طرح مہنگائی کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ بھی یک نہ شد دو شد بن کر عوام پر دونوں طرف سے حملہ آور ہے۔ ہمارے صابر و شاکر عوام اس عظیم مہینے میں بھی ان دونوں سے نبرد آزما ہیں۔
٭........٭........٭
لالو پرشاد کے بیٹے کا سائیکل پر ہنی مون
بھارتی سیاست میں لالو پرشاد یادیو اور ان کی اہلیہ رابڑی دیوی کا تذکرہ مدتوں یاد رہے گا۔ یہ جوڑا سیاست میں اور سیاست سے ہٹ کر معاشرتی زندگی میں بھی لاکھوں بہاریوں کے دلوں میں راج کر رہا ہے۔ لالو پرشاد کو تو بہار میں وہی اہمیت حاصل ہے جو بھارتی رسوئی (کچن) میں آلو کو حاصل ہے۔ اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ رابڑی دیوی بھی ایک مکمل گھریلو عورت کے روپ میں کافی دلوں میں بستی نظر آتی ہیں۔ پھر وہ دور بھی آیا جب ان دونوں کو کرپشن کے الزام میں سیاست سے بیدخلی کا سندیسہ ملا۔ چارہ کمشن کیس لالو پرشاد کو لے بیٹھا۔ حکومت گئی، مگر لوگ ابھی تک ان دونوں سے محبت کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کے بیٹے کی شادی ہوئی۔ دھوم دھام سے شادی تو بھارتی معاشرے کی مجبوری ہے ورنہ برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔ خیر شادی کے بعد نوبیاہتا جوڑا شہر کے شور شرابے سے دُور کسی تفریحی مقام پر یا پُرسکوں دیہات میں جا پہنچا ہے۔ جہاں پر دولہا میاں نے کسی قیمتی گاڑی کی بجائے اپنی پتنی کو عوامی سواری سائیکل پر بٹھا کر سیر کرائی۔ ہمارے ہاں تو ”آجانی بہہ جا سائیکل تے“ صرف گانے کے طور پر کہا جاتا ہے مگر وہ دونوں میاں بیوی اس سیر میں بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ ایک جس محبت پاش نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اس سے معلوم ہوتاہے کہ دکھاوے کی چکا چوند اپنی جگہ مگر جو مزہ سادگی میں ہے سائیکل کی سواری میں ہے وہ اپنی جگہ۔
٭........٭........٭