دشمن کے عزائم کاادراک کریں اور باہم یکجہت ہو جائیں
سیالکوٹ ورکنگ باﺅنڈری پر بھارت کی ننگی جارحیت‘ ایک خاندان سمیت چھ افراد شہید
بھارتی فوج نے جمعة المبارک کے روز سیالکوٹ ورکنگ باﺅنڈری سے ملحقہ شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے ایک ماں اور اسکے تین بچوں سمیت چھ شہری شہید اور 28 شدید زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں چار کی حالت تشویشناک ہے۔ بھارتی گولہ باری سے درجنوں مویشی بھی ہلاک اور زخمی ہوگئے جبکہ شہریوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ چناب رینجرز نے بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کا منہ توڑ جواب دیا اور دشمن کی کئی چوکیاں تباہ کردیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز نے مقبوضہ جموں سے ملحقہ ورکنگ باﺅنڈری لائن کے ہرپال‘ باجڑہ گڑھی‘ چارواہ اور شکرگڑھ کے سیکٹرز میں سول آبادی پر عین اس وقت فائرنگ اور گولہ باری شروع کی جب گھروں میں سحری کی تیاری ہو رہی تھی چنانچہ اس گولہ باری سے سحری کا کھانا تیار کرنیوالی 40 سالہ خاتون کلثوم بی بی‘ اسکی بیٹیاں شمع ناز‘ مسکان اور بیٹا علی حمزہ گھر کے اندر موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ ہرپال سیکٹر کے گاﺅں ہرنانوالی میں بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے دو نوجوان نوید اور احتشام شہید ہوئے۔ گزشتہ روز شہداءکی نماز جنازہ ادا کردی گئی جس میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل اطہرنوید حیات نے بھی شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے متاثرہ شہری آبادیوں سے ہزاروں لوگ اپنے مویشیوں اور اہل خانہ سمیت نقل مکانی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔ اس بلااشتعال گولہ باری کے باعث شہری آبادیوں کے مکین اپنے گھرں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی اشتعال انگیزی پر پاکستان رینجرز کی جانب سے بھرپور جواب دیا گیا جس سے بھارتی چیک پوسٹوں میں آگ لگ گئی۔ اس حوالے سے بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی فائرنگ سے بھارت کے سرحدی سکیورٹی فورسز کے ایک اہلکار سمیت پانچ افراد مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب ورکنگ باﺅنڈری سے ملحقہ شہری آبادیوں کے مکینوں نے گزشتہ روز بھارتی گولہ باری اور فائرنگ کا منہ توڑ جواب دینے والی پاک آرمی کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور پاک فوج زندہ باد اور بھارت مردہ باد کے نعرے لگائے۔ ان مظاہرین نے اقوام متحدہ سے بھارت کیخلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی طرح پاکستان کی جانب سے بھی بھارت سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اور کنٹرول لائن و ورکنگ باﺅنڈری پر بلااشتعال فائرنگ پر سخت احتجاج کیا گیا اور بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے انہیں بتایا گیا کہ بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر مسلسل شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے‘ انہیں باور کرایا گیا کہ بھارتی فوج نے اس سال 2018ءکے دوران اب تک ایک ہزار 50 سے زائد مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے 28 شہری شہید اور 117 زخمی ہوئے ہیں۔ بھارت کی طرف سے غیرمعمولی جارحیت 2017ءسے جاری ہے۔ اسکی فوجوں کا شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے قائم مقام سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنر سے اس امر کا تقاضا کیا کہ بھارتی افواج کو جنگ بندی معاہدے کی مکمل پاسداری کرنے کی ہدایت کی جائے اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر امن برقرار رکھا جائے۔
بھارت کی یہ اشتعال انگیزیاں اور اسکے جارحانہ اقدامات درحقیقت اسکے اپنی فوجوں کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں پر اپنا غاصبانہ تسلط جمانے کے وقت سے ہی جاری ہیں اور یہ کارروائیاں دراصل پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی کی جارہی ہیں۔ اس وقت چونکہ بھارت پر ہندو انتہاءپسند بی جے پی برسر اقتدار ہے جو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے شدت پسندانہ جذبات رکھتی ہے جبکہ بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی خود بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اعلانیہ سازشوں میں مصروف ہیں جس کا وہ فخریہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اس لئے مودی سرکار کے دور میں پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی میں شدت پیدا ہوئی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر پاکستان کی شہری آبادیوں پر بھی جارحیت کا ارتکاب شروع کر رکھا ہے۔ سیالکوٹ کی ورکنگ باﺅنڈری تو خالصتاً پاکستان کی شہری آبادیوں سے منسلک ہے اس لئے بھارتی فوجیں ان شہری آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری کرکے درحقیقت پاکستان پر حملہ آور ہورہی ہیں جس پر ہمیں بھارتی ہائی کمشنر کی محض دفتر خارجہ طلبی اور ان سے بھارتی فوجوں کی ننگی جارحیت پر محض رسمی احتجاج پر اکتفاءنہیں کرنا چاہیے بلکہ اب بھارتی جارحیت کا اسی کے لب و لہجے میں سخت جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان رینجرز نے سیالکوٹ سیکٹر پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کی جانب سے بھارت کو باور بھی کرایا گیا ہے کہ دہلی کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ ہم اسے منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسکے باوجود ہمیں شدت اختیار کرتی بھارتی جارحانہ کارروائیوں پر فوری طور پر ٹھوس اور عملی اقدامات بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی جانب سے ملک کی سرحدوں پر پیدا کئے گئے سنگین خطرات کے پیش نظر آج جہاں قومی اتحاد و یکجہتی کے عملی مظاہرے کی ضرورت ہے‘ وہیں ملک کی مسلح افواج کا دفاع وطن کی ذمہ داریوں کے تحت سرحدوں پر ہمہ وقت چوکس رہنا بھی ضروری ہوگیا ہے جس کیلئے عساکر پاکستان کی پوری توجہ دفاع وطن کے فرائض کی ادائیگی پر ہی مرکوز ہونی چاہیے اور اسے ملک کے اندر بھی سکیورٹی کے معاملات کے سوا کسی دوسری ذمہ داری کی جانب نہیں آنا چاہیے۔
بھارت کو درحقیقت ہماری اندرونی کمزوریوں اور سیاسی عدم استحکام کے تسلسل سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ اس وقت عساکر پاکستان ملک کے اندر دہشت گردی کے ناسور کے مستقل قلع قمع کیلئے بھی مصروف عمل ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک میں امن و امان کو لاحق خطرات سے عہدہ برا¿ ہونے کی ذمہ داری بھی سکیورٹی فورسز ہی نبھا رہی ہیں اس لئے بادی النظر میں عساکر پاکستان کی توجہ سرحدوں کی حفاظت سے ہٹتی نظر آتی ہے تو ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو یہ صورتحال پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کو فروغ دینے کیلئے اپنی معاون بنتی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دو سال سے اسی تناظر میں بھارت کی فوجیں کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر روزانہ کی بنیاد پر تسلسل کے ساتھ پاکستان کی جانب فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام پر بھی ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرکے انہیں شہادتوں سے ہمکنار کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی سلامتی پر اوچھا وار کرنے کی نیت سے ہی مودی سرکار نے اپنے دفاعی بجٹ میں مثالی دس گنا اضافہ کیا ہے جس کے تحت بھارتی فوج کو ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ اور جنگی سازوسامان سے لیس کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور آرمی چیف بپن راوت خود پاکستان کی سلامتی کیخلاف بڑھکیں لگاتے اور ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ممبئی حملوں کے تناظر میں ایک ایسا بیان دے دیا جس سے پاکستان کیخلاف بھارتی موقف کو تقویت حاصل ہوئی اور اسکے میڈیا نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ اس بیان کی بنیاد پر ملک کے اندر بھی سیاسی کشیدگی اور اداروں کے ساتھ محاذآرائی میں شدت پیدا ہوئی جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا مزید اجاگر ہوئی چنانچہ بھارت کو اس فضا سے بھی فائدہ اٹھانے کا خوب موقع ملا جس کی جانب سے جہاں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر پاکستان مخالف اپنی لابیز کو متحرک کردیا گیا ہے اور پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی وہیں بھارتی فوجوں کو پاکستان کی سلامتی پر وار کرنے کیلئے بھی متحرک کردیا گیا ہے۔ گزشتہ روز سیالکوٹ سیکٹر پر بھارتی فوجوں کی ملحقہ شہری آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہو سکتی ہے اس لئے آج ملک میں سیاسی اختلافات کو ہوا دینے اور محاذآرائی کا میدان گرم کرنے کی نہیں بلکہ تمام متعلقین کی جانب سے ملک کی سلامتی کے تحفظ کے تقاضے نبھانے کی ضرورت ہے جس کیلئے قوم میں 1965ءوالا جذبہ پیدا کرکے اسکے دفاع وطن کیلئے سیسہ پلائی دیوار بننے کا دشمن کو ٹھوس پیغام دینا ضروری ہو گیا ہے۔ اگر آج ملک میں سیاسی محاذآرائی کو فروغ دیا اور عساکر پاکستان کو ملک کی سیاست میں ملوث ہونے کا موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا تو محاذآرائی کی اس فضا میں نہ قوم میں دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کا حقیقی جذبہ پیدا ہو پائے گا نہ عساکر پاکستان کی توجہ مکمل طور پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری پر مرکوز ہوسکے گی۔ آج دشمن کے عزائم کی بنیاد پر ملک کا تحفظ و دفاع ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے جس کیلئے عساکر پاکستان نے بہرصورت بنیادی کردار ادا کرنا ہے اس لئے انکے حوالے سے کسی قسم کی منافرت کی فضا یا غلط فہمی کو فروغ دینا ملک کا دفاع کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہی وہ صورتحال ہے جو آج مکمل قومی اتحاد و یکجہتی کی متقاضی ہے۔ ہماری سیاسی قیادتوں کو اپنی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے مواقع بھی تبھی حاصل رہیں گے جب ملک کی سلامتی اور اس کا دفاع مضبوط ہوگا۔ اگر خدانخواستہ یہ ملک ہی نہ رہا تو سیاست بازی میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کا شوق کہاں پورا کیا جائیگا۔ بھارت کی جانب سے ہماری سلامتی کیخلاف گزشتہ روز کی کارروائی اسی تناظر میں ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ خدا اس ارض وطن کو ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ ً