معلوم نہیں صفدر میر نے کس سیالکوٹ کو سلام پیش کیا تھا، پینسٹھ میں اس کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی تھی۔
آج یہ سیالکوٹ پھر خون میں نہا گیا ہے۔پینسٹھ میں بھی یہاں جارحیت بھارت نے کی تھی اور اب ہفتے کے روز بھی بھارتی فوج نے ہی یہاں کولڈ اسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ کیا اور ہمارے بے گناہ شہری شہید کر دیئے جن میں ماں اور تین بچے بھی شامل ہیں۔
جہاں تک میرا جغرافیہ کام کرتا ہے، اس کے مطابق سیالکوٹ پاکستان کی بین الاقوامی حدود میں واقع ہے، جیسے بھارتی شہر پٹھان کوٹ، گورداس پور ،جالندھر۔ امرتسر اور فیروز پور بھارت کی حدود میں واقع ہیں مگر میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم نے پٹھانکوٹ ، گورداس پور، جالندھر، امرتسر یا فیروز پور میں کسی بھارتی ماں ، ا سکے تین بچوں اور دیکر شہریوں کو ہلاک کیا ہوتا تو کیا بھارت بھی نئی دہلی میںمتعین ہمارے سفارت کار کو اپنے دفتر خارجہ طلب کر کے ایک احتجاجی عریضہ اس کے ہاتھ میں تھمانے پر اکتفا کرتا، بھارتی میڈیا اس پر کیا ہا ہا کار مچاتاا ور ہمارا میڈیا انسانیت کے عشق میں ڈوب کر اپنی فوج اور اس کے زیر سرپرست چلنے والے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو کس طرح رگید رہا ہوتا۔
میرا اندازہ ہے کہ سیالکوٹ کا لاہور اور پنڈی سے کم وبیش ایک جیسافاصلہ ہے۔نہ بھی ہو تو موبائل فون یا ڈی سی این جی کے دور میں سیالکوٹ میں گرنے والی لاشوں کو گننا اتنا مشکل نہ تھا کہ ہمارے کسی اخبار نے چھ شہید لکھے ہیں ، کسی نے چارا ور کسی نے تین پر گنتی ختم کر دی ہے،اس سے مجھے شبہہ ہو رہا ہے کہ بھارتیوںنے پاکستانیوں کو شہید بھی کیا اور ان کی لاشیں بھی اٹھا کر لے گئے یا ممکن ہے یہ لوگ بھارتی علاقے ہی میں گھس گئے ہوں اور بھارتی توپوں اور مشین گنوں اور اسنائیپرز نے انہیںنشانے پر رکھ لیا ہو۔ ایک زمانے میں مصطفی کھر کے تاج پورہ کے جلسے میں ہنگامہ ہوا۔ اس ہنگامے میں مرنے والوں کی تعداد پر بھی ایساہی ا ختلاف تھا جیسا بھارتی گولہ باری سے شہید ہونےو الوں کی تعداد پر ہے۔
ہمارے وہ سپاہ سالار تو سعودی عرب کو دان کر دیئے گئے جو بھارت کو للکارتے تھے کہ ہم کولڈ اسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ دونوں کے لئے تیار ہیں، ایک ا شتھار کے مطابق ہماری حالت اب دھکا اسٹارٹ والی ہو گئی ہے، اس لئے بھارت کی جارحیت کے جواب میں ہم نہ کولڈ اسٹارت کر پائے ہیں نہ ہاٹ اسٹارٹ۔ ویسے خبروں سے تاثر ملتا ہے کہ ہم نے بھی بھارتی فوج کی خوب ٹھکائی کی ہے۔ کیا ہماری پارلیمنٹ یہ بتا سکتی ہے کہ بس اسی قدر ٹھکائی کافی تھی۔ کیا چودھری شجاعت حسین بتا سکتے ہیںکہ ہمارے ایٹم بم واقعی ہی شادی بیاہ پر پٹاخے چلانے کے کام آئیں گے۔
وقت کی گردش پیچھے کو گھوم سکتی ہو تو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ محمد بن قاسم کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ سندھ میں ایک لڑکی کی چیخ سن کر پورا لشکر لے کر آ گیا تھا اور راجہ داہر کی سلطنت کا نام و نشان مٹا دیا، میں نے ایک بار چند لبرل، یاسیکولر یا سرخوں کو یہ کہتے سنا کہ کیا محمد بن قاسم کے دور میں ایس ایم ایس سروس تھی اور کیا محمد بن قاسم اینڈرائیڈ فون اور گوگل لوکیشن استعمال کرتا تھا۔ یہ اس تاریخی واقعے کا مضحکہ اڑانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ مگر مجھے بتایا جائے کہ بیس کروڑ پاکستانیوںمیں سے پندرہ کروڑ لوگ آج اینڈرائیڈ فون استعمال کرتے ہیں ، ان میں دس کروڑ تک سیالکوٹ پر گزرنے والی قیامت کی خبر ضرور پہنچی ہو گی، انہوںنے کس رد عمل کاا اظہار کیا، کیا بیس کروڑ میں سے ایک بھی محمد بن قاسم کے نقش قدم پر چلنے والا کوئی نہیں۔
صاحبو! میں پھر کہتا ہوں کہ سیالکوٹ پاکستان میں واقع ہے ، یہ دنیا کے کسی تنازع خطے کا شہر نہیں، آزاد کشمیر کا شہربھی نہیں ، کنٹرول لائن پر واقع شہر بھی نہیںتو پھر اس کے دفاع کے لئے ہماری پارلیمنٹ نے کیا سٹرایٹیجی تیار کر رکھی ہے۔ایسا دفاع جو پینسٹھ میںہم نے کیا اور اس پر صفدر میر نے سیالکوٹ کو سلام جیسا تاریخی اور شہرہ آفاق رزم نامہ لکھا۔کاش! آج مجھے بھی یہ توفیق ہوتی کہ میں ایک نیا رزمیہ قلم بند کرتا مگر کیسے کرتا ،ہم تو لاشوں کی صحیح گنتی بھی نہیں کر پائے۔میں ایسی قوم کے کردار کا نوحہ لکھ سکتا ہوں یاا س کی بے حسی کا ماتم کر سکتا ہوں اور اس پارلیمنٹ سے جس کی اپنی زندگی صرف دس دن کی باقی ہے ، یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا اس نے پاکستانی شہریوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے یا ہمیں بھارتی افواج کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔مجھے ایک سوال میر ظفراللہ جمالی سے بھی پوچھنا ہے ، جو اسوقت ایوان سے مستعفی ہو گئے ہیں ، انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ ایوان سے استعفے کا کونسا وقت مناسب ہے مگر وہ اپنے ماضی کے حوالے سے مجھے اور پوری قوم کو بتائیں کہ انہوںنے مشرف دور میں بطورو زیر اعظم ایک نشری خطاب میں بڑی دریا دلی کا مظاہرہ کیا تھا ور کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر یک طرفہ جنگ بندی کاا علان کر دیا تھا مگر یہ اعلان کرتے ہوئے انہوںنے کوئی وضاحت نہیں کی تھی کہ بھارت اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کرے گا توہمیں جواب میں کیا کرنا ہے۔ کیا صرف یہ کہ جن گھروں میںلاشیں آئیں وہ ایک دو روز کے لئے رو دھو لیں۔ اور ہمار فارن ا ٓفس ایک مراسلہ بھارتی سفارتی اہلکار کے حوالے کر دیا کرے۔ اگر مسئلہ احتجاجی مراسلے کی ڈیلوری تک ہی محدود رکھنا تھا تو یہ لاﺅ لشکر کیوں کھڑا کیا، یہ ایٹمی ہتھیار کاہے کو بنائے، یہ میزائلوں کا جھنھٹ کیسا۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ ایٹمی اسلحے ا ور میزائل سب کچھ ڈیٹرنٹ ہے، یہ جنگ کو روکنے کے لئے ہے، پاکستان کو محفوظ و مامون بنانے کے لئے ہے مگرآج جب سیالکوٹ کے گھروں میں چھ یا چار یا تین لاشیں آئی ہیں تو کیا اسے محفوظ پاکستان کہا جائے گا۔
عالم عرب میں ہم اسرائیلی فوج کی گولیوں سے شہید ہونے والوں کی میتیوں کو کندھا دے رہے ہیں، ترکی میں اسلامی کانفرنس کے لاشے کو کندھا دینے کے لئے کچھ راہنما جمع ہوئے ہیں ۔ا سلامی کانفرنس کے لاشے کو کندھا کیا دیں گے، یہ لاشہ تو گل سڑ چکا۔ ترکی میں اسلامی کانفرنس کے راہنماﺅں کاا علامیہ انتہائی بودا، بھونڈا، بے مغز اور بے معنی ہے ۔ ترکی کے لوگ صرف اپنی فوج کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ سکتے ہیں ، یہ فلسطینیوں ، کشمیریوں،اور روہنگیا کی کیا مدد کر پائیں گے۔ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024