بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر پہنچے۔ مودی بھارت کے زیر تسلط کشمیریوں میں بھارتی قبضہ کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور مزاحمت کو کم کرنے کے لئے پرانا اور آزمودہ نسخہ پھر آزما رہے ہیں۔ کشمیریوں کو ترقی اور معاشی آسودگی کے نام پر دھوکہ دینے کے لئے مودی نے نیا نعرہ یہ دیا ہے کہ ”تمام مسائل کا حل صرف ایک ہے ترقی ترقی اور ترقی“ اس بھارتی سلوگن کو کشمیری گزشتہ ستر برس سے مسلسل مسترد کرتے چلے آرہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کی سرینگر آمد سے پہلے بھارتی سکیورٹی فورس سی آر پی ایف کی 25 کمپنیاں صرف سرینگر میں امن برقرار رکھنے کےلئے لگائی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ جموں کشمیر پولیس کے دستے‘ پورے مقبوضہ کشمیر کے کئی اضلاع سے پولیس اور کمانڈوز بھی سرینگر میں امن قائم رکھنے کے لئے لگائے گئے ہیں۔
مودی نے اس متنازعہ ڈیم کا افتتاح کیا جسے بھارت کشن گنگا ڈیم کہتا ہے۔ ڈیم دریائے نیلم کے پانی کا رخ موڑ کر اس پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جب کشن گنگا ڈیم کی 2007ءمیں بھارت نے تعمیر شروع کی تو پاکستان نے اس پر سخت احتجاج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ بھارت کو پاکستان کے حصے کا پانی روک کرڈیم بنانے کا اختیار نہیں۔ سندھ طاس سمجھوتہ بھارت کو یہ اختیار نہیں دیتا۔ پاکستان کشن گنگا ڈیم کا تنازعہ ہیگ میں ثالثی عدالت میں لے گیا۔ پاکستان کی درخواست پر عدالت نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے خلاف عارضی سٹے آرڈر دے دیا۔ بھارت کو کام روکنا پڑا۔ ثالثی عدالت نے ماہرین کا ایک وفد علاقے میں بھیجا جس نے صورتحال کا جائزہ لے کر عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ یہ تنازعہ کئی سال ثالثی عدالت میں چلتا رہا۔ بھارت نے فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا۔ فروری 2017ءمیں ثالثی کی مستقل عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ایک مخصوص تناسب کو چھوڑ کر بھارت کشن گنگا یعنی دریائے نیلم کے پانی کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھارت نے تیزی سے ڈیم مکمل کیا۔ 330 میگا واٹ پیداواری گنجائش کا یہ ڈیم دریائے نیلم پر بنا ہے۔ یہ ڈیم مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر ہوا ہے۔ مجموعی طور پر اس ڈیم پر بھارت نے 864 ملین ڈالر خرچ کئے ہیں۔
پاکستان نے بھی دریائے نیلم پر نیلم جہلم ہائیڈرو پاور تعمیر کیا ہے یہ کشن گنگا ڈیم کے بعد دریائے نیلم میں آنے والے پانی کو ذخیرہ کر کے بنایا گیا ہے۔ بھارت کشن گنگا کے ذریعہ اور پاکستان نیلم جہلم کے ذریعہ دریائے جہلم کا پانی بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیریوں کو کشن گنگا کا ”تحفہ“ دینے کے علاوہ سٹرٹیجک اہمیت کی ایک سرنگ Tunnel کی تعمیر کا بھی افتتاح کیا۔ اس ٹنل کا نام زوجیلا سرنگ رکھا گیا ہے۔ 14 کلو میٹر لمبی اس Tunnel کی تعمیر سے بھارت کو کارگل سیکٹر تک تمام موسموں خاص طور پر موسم سرما میں جب کارگل اور لیپہ کا علاقہ بھاری برف باری کی وجہ سے جموں و کشمیر سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور اس سے زمینی رابطہ قریباً منقطع ہو جاتا ہے۔ اب بھارت کو بآسانی ایک محفوظ روٹ مل گیا ہے جسے بھارت سٹرٹیجک مقاصد کیلئے استعمال کرے گا۔
زوجیلا ٹنل "Zojila Tunnel" کی تعمیر سے 1999ءکی پاک بھارت کارگل کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ جنگ بھارتی فوج کے لئے ایک صدمہ خیز سرپرائز تھی۔ بھارت اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ ابتداءمیں اس جنگ میں پاکستان کا پلہ بھاری تھا‘ لیکن پاکستان اپنی اس عسکری بالادستی کو قائم نہ رکھ سکا۔ کارگل کی جنگ پر پاکستان سفارتی محاذ پر ناکام رہا۔ دونوں ملکوں میں ایٹمی جنگ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ کارگل جنگ پر بھارتی جرنیلوں اور عسکری امور کے ماہرین نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ پاکستان میں کارگل جنگ پر فوج اور اس وقت کی سویلین حکومت جس کے سربراہ نواز شریف تھے کے دمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ فوج نے انہیں کارگل جنگ پر پوری طرح اعتماد میں نہیں لیا۔ اور انہیں اندھیرے میں رکھا گیا جبکہ فوج کا موقف ہے کہ نواز شریف کو ہر بات کا پتہ تھا۔ بہرحال یہ جنگ بھی سول حکومت اور فوج میں اختلافات کا سبب بنی۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اکتوبر 1999ءکے فوجی ٹیک اوور اور نواز شریف کی طویل جلا وطنی کے پیچھے کارگل کی جنگ ہی تھی۔ کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف ان دنوں جو دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ رازوں سے پردہ اٹھائیں گے ان میں شاید کارگل جنگ بھی شامل ہے۔ سابق وزیراعظم ایک زمانے میں یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آ کر کارگل کی جنگ پر کمشن بنائیں گے۔
بات نریندر مودی کے کشمیر کے دورہ اور کشمیریوں کے لئے ترقیاتی پیکج کی ہو رہی تھی۔ جواہر لعل نہرو سے نریندر مودی تک سارے بھارتی وزیراعظم کشمیریوں کو معاشی ترقی اور ڈویلپمنٹ کا چکمہ دے کر انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کو ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ مودی جس ماحول میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں اس سے ہندتوا کا پرچار کرنے والے اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بتانے والے اس وزیراعظم کو پتہ چل چکا ہو گا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ اس وقت مقبوضہ اور آزاد کشمیر مودی کے دورے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کشمیر ترقیاتی منصوبے نہیں آزادی چاہتے ہیں۔ آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024