اس وقت ہم معاشی بدحالی اور لوگوں کو ان کے حقوق کی عدم ادائیگی کے اس دور سے گزر رہے ہیں کہ جس نے معاشرے میں بے چینی اور اضطراب کو بڑھا دیا ہے۔ یہاں تک کہ بجٹ جو کہ ہمیشہ ہی الفاظ کا گورکھ دھندا رہا ہے۔ عوام کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکا ہے۔ موجودہ بجٹ میں ہمیں ان امور کا جائزہ لینا انتہائی ناگزیر ہے کہ جس کے تحت نہ صرف عوام کو ریلیف مل سکے بلکہ ان کے دکھوں کا مداوا بھی ہو سکے۔ گذشتہ پانچ دہائیوں سے ہماری اولین ترجیح غربت مٹانا اور انسانی وسائل کی ترقی کبھی نہیں رہا ہے۔ ان پانچ سالوں میں ہم نے صحت‘ تعلیم‘ روزگار اور بنیادی ضرورتوں کی مد میں کتنا خرچ کیا اور اس کے کیا نتائج ہمارے سامنے آئے کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بدنظمی اور بدعنوانی پاکستان کی معیشت پر اس طرح اثرانداز ہوئی کہ پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ ملک پر بوجھ صرف اندرونی قرضوں کا ہی نہیں بیرونی قرضوں کا بھی ہوتا ہے جو کہ اصل زر کے ساتھ ساتھ سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اندرونی قرضوں کی وجہ سے افراط زر یعنی "Crowding out affect" بڑھتا ہے۔ اندرونی قرضوں سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ نجکاری کے عمل سے ایک روپیہ بھی کسی اور مد میں استعمال میں نہ کیا جائے۔ ملک میں غربت کے مسئلہ کو ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کے لئے بجٹ میں ان ترجیحات کو مناسب جگہ دی جائے جس سے غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ تیز رفتار معاشی ترقی کے لئے خارجہ‘ داخلہ اور اقتصادی پالیسیوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کو کھلے دل سے قبول کر کے ان میں ہم آہنگی کی بھرپور کوشش کی جائے۔ غربت کے خاتمے کے کھوکھلے نعرے سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں۔ انسان دوست بجٹ ہی ان کے دکھوں کا مداوا ہے۔ محصولات اور پیداواری شعبے کی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ تعلیم اور صحت جیسی سہولیات بہم پہنچانا تو درکنار ریاست شہریوں کی جان و مال کی حفاظت جیسی بنیادی ذمے داری نبھانے سے بھی قاصر نظر آتی ہے۔ چنانچہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام ناکام نہیں رہے اور نہ ہی ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ بلکہ ریاستی ادارے ناکام رہے ہیں اور انہی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے بنیادی حقوق ان کا حق ہیں تو حقوق کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ادارے مو¿ثر اور فعال ہوں۔ اگر ہماری سیاسی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی نہیں آئی اور ہم اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں قابل ذکر کمی نہیں کرتے تو ہم شاید عوام کو تو دھوکے میں رکھ سکیں لیکن اس سے نہ تو ملکی اداروں کی اصلاح ممکن ہے اور نہ ہی غربت اور اقتصادی بدحالی کے چکر کو توڑنا ہمارے لئے ممکن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار کے تناسب سے محصولات کی شرح 16 فیصد زائد ہے۔ مگر یہ شرح اتنی ہے کہ ہم بنیادی فرائض یعنی عوام کے جان و مال اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو مو¿ثر بنا سکتے ہیں۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ جب ریاستی ادارے قومی آمدنی کا 16 فیصد وصول کرنے کے باوجود ناکام ہو جائیں تو مزید ٹیکس وصول کرنے کا حکومت کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے۔
ہمارے پاس نعرے تو موجود ہیں کہ غربت کا خاتمہ کریں گے‘ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی‘ ملک اقتصادی طور پر ترقی کرے گا لیکن ہمارے پاس عملی طور پر کوئی فارمولا اور حکمت عملیاں موجود نیہں ہیں کہ ان کا ازالہ کیسے ہو گا۔ انتخابات سے قبل ہر حکمران یہ دعویٰ اور وعدہ کرتا ہے کہ اس کے اقتدار کو سنبھالتے ہی پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی۔ مگر وہی ڈھاک کے تین پات‘ چند دنوں تک یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ مسائل اتنے اور آسان اور سادہ نہیں اور نہ ہی ہمارے دلوں میں وہ ذوق و شوق ہے کہ مو¿ثر اور جامع تبدیلی لائی جا سکے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شروع میں عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ مگر مسائل ہی اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ خاصا وقت درکار ہے اور اس طرح غربت کے خاتمے‘ ان کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور اس سے جڑے ہوئے بہت سے مسائل کھٹائی میں جا پڑتے ہیں اور عوام میں بے چینی‘ اضطراب انتشار بڑھتا رہتا ہے۔ جس سے اور پاکستان کے استحکام کا خواب بکھرتا چلا جاتا ہے۔ایک مرتبہ علا¶الدین خلجی نے اپنے وزیر باتدبیر سے سوال کیا کہ بیت المال پر میرا اور میرے بیٹوں کا کتنا حق ہے۔ وزیر نے جواب دیا جتنا عام مسلمان کا یا اس سے بھی کم۔ بادشاہ کو غصہ آ گیا۔ اس نے وزیر کو دربار سے بھیج دیا اور کہا کہ کل آنا وزیر نے ساری رات دعائیں مانگتے گزاری کیونکہ اسے امید تھی کہ بادشاہ اسے قتل کروا دے گا۔ اگلے دن جب وہ دربار میں آیا تو بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا اور کہا کہ تم نے مجھے حق اور سچ بات بتائی ہے اور اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ جس دن ہم یہ سیکھ جائیں گے کہ ہمارے فرائض اور دوسروں کے حقوق کیا ہیں۔ شاید ایک بڑی اور واضح تبدیلی ہمارا مقدر ہو۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38