ڈاکٹر ایم اے صوفی
میں قدیمی مسلم لیگ کے نظریات کا حامی ہوں اور تحریک پاکستان میں تقسیم ہند سے قبل حصے دار رہا ہوں۔ میں حکومت پنجاب کی آسامی پرنسپل کالج آف کمیونٹی میڈیسن سے 28جولائی 1991ءکو ریٹائرڈ ہوا ہوں۔قلم کے ذریعہ نظریات پاکستان اور پاکستان کے بارے میں خدمت کر رہا ہوں مگر میری محبت مسلم لیگ اور پاکستان کی ترقی میں حصے دار تھے وجہ یہ ہے: آل انڈیا مسلم لیگ کی یکجہتی کی بدولت اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت کی بدولت ہندو بنیا اور انگریز سرکار تقسیم ہند پر راضی ہوئے اور ہمیں خدا نے 14اگست 1947ءکو پاکستان عطا کیا جو بڑی دولت ہے۔آپ کے والد ماجد میاں محمد شریف پاکستان کی اہمیت جانتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے میاں نواز شریف اور آپ کو سیاست میں داخل ہونے کی اجازت شاید1984ءمیں دی۔اس پر میاں نواز شریف پہلے وزیر خزانہ ہوئے الیکشن کے ذریعہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے اور آپ نے ہمارے سامنے اس الیکشن میں بڑا کام کیا پھر میاں نواز شریف 6نومبر 1990ءسے 18اپریل 1993ءوزیراعظم پاکستان بطور صدر پاکستان مسلم لیگ منتخب ہوئے اور پھردوبارہ 17فروری 1997 ءسے 12 اکتوبر 1999ءتک وزیراعظم رہے۔یہ دو مرتبہ سارے پاکستان کے ہر دلعزیز لیڈر مانے گئے اور تمام صوبوں میں آپ کے چاہنے والے موجود تھے جب جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا اور میاں صاحب جیل میں گئے پھر سعودی عرب 8سال گذارے اور واپس وطن آئے مگر آپ کے کچھ ساتھی آپ کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور علیحدہ جماعت بنالی اور ڈکٹیٹر کے ساتھ ہوگئے۔اب آپ کا امتحان ہے۔
2008ءکے الیکشن میں آپ نے پاکستان کے مختلف حصوں میں نشستیں حاصل کیں مگر صرف پنجاب میں آپ کو فوقیت میسر آئی۔ سابق صوبہ سرحد کے لوگ خاص کر ہزارہ کے لوگ پکے مسلم لیگی تھے آپ کی عزت کرتے تھے مگر آپ نے نیشنل عوامی پارٹی سے دو مرتبہ تعاون کیا ایک بار کالا باغ ڈیم کی تعمیر آپ نے ان کے کہنے پر روک دی،دوسرا صوبہ سرحد کا نام آپ کے تعاون سے تبدیل ہوا۔ تقسیم ہند سے قبل بھی ہزارہ مسلم لیگ کا اڈا تھا اور کانگریس کے مقابلہ میں 1946ءکے الیکشن میں ہزارہ سے دس سرحد ممبران اسمبلی میں منتخب ہوئے اور اب ہزارہ میں آپ کا ووٹ کم ہوگیا۔اسی طرح سرحد میں آپ کے ممبران کم ہوگئے۔
اس وقت مرکزمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جن کے ساتھ 4سال مرکز میں تعاون کیا اور بعد میں اپوزیشن میں (دوستی کی اپوزیشن) میں ہوئے۔ اس سے آپ کی پارٹی مسلم لیگ(ن) کے وقار کو نقصان ہوا۔ادھر پنجاب میں آپ کی حکومت سے سرکاری اہلکار خوش نہیں، کلرک،پیرا میڈیکل سٹاف، نرسز،لیڈی ہیلتھ وزیٹر، ڈاکٹرز،طلبا اور ٹیچرز سب نے آپ کی حکومت کیخلاف ہڑتالیں کیں، جلوس نکالے اور لوگوں کی ہمدردیاں دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ ہورہی ہیں۔
انتظامی طورپر شہر لاہور گندگی کا اڈا ہے۔کسی علاقہ میں آپ کے منتخب نمائندے علاقے میں نہیں جاتے۔ لوگ بدظن ہیں اور جو رہ گئے ہیں و ہ بھی بدظن ہوتے جارہے ہیں۔مہنگائی ہے اور پولیس راج ہے۔دن دھاڑے لوٹ مار ہے،انتظامیہ ہر جگہ فیل ہے۔سرکاری ہسپتال میں مریض زیادہ ہیں۔ڈاکٹر ز کم ہیں جو ہیں وہ خوش نہیں کیونکہ آپ کی پنجاب حکومت انتظامی اُمور میں کم دلچسپی لیتی ہے۔ سیکرٹریٹ میں کام نہیں ہوتا۔ اپنے ”آشیانہ اور دانش سکول“ کا اجراءکیا اور ” لیپ ٹاپ“ ذہین طلبہ میں تقسیم کئے اس سے بھی ووٹ نہیں ملیں گے۔ (جاری ہے)
میں قدیمی مسلم لیگ کے نظریات کا حامی ہوں اور تحریک پاکستان میں تقسیم ہند سے قبل حصے دار رہا ہوں۔ میں حکومت پنجاب کی آسامی پرنسپل کالج آف کمیونٹی میڈیسن سے 28جولائی 1991ءکو ریٹائرڈ ہوا ہوں۔قلم کے ذریعہ نظریات پاکستان اور پاکستان کے بارے میں خدمت کر رہا ہوں مگر میری محبت مسلم لیگ اور پاکستان کی ترقی میں حصے دار تھے وجہ یہ ہے: آل انڈیا مسلم لیگ کی یکجہتی کی بدولت اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت کی بدولت ہندو بنیا اور انگریز سرکار تقسیم ہند پر راضی ہوئے اور ہمیں خدا نے 14اگست 1947ءکو پاکستان عطا کیا جو بڑی دولت ہے۔آپ کے والد ماجد میاں محمد شریف پاکستان کی اہمیت جانتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے میاں نواز شریف اور آپ کو سیاست میں داخل ہونے کی اجازت شاید1984ءمیں دی۔اس پر میاں نواز شریف پہلے وزیر خزانہ ہوئے الیکشن کے ذریعہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے اور آپ نے ہمارے سامنے اس الیکشن میں بڑا کام کیا پھر میاں نواز شریف 6نومبر 1990ءسے 18اپریل 1993ءوزیراعظم پاکستان بطور صدر پاکستان مسلم لیگ منتخب ہوئے اور پھردوبارہ 17فروری 1997 ءسے 12 اکتوبر 1999ءتک وزیراعظم رہے۔یہ دو مرتبہ سارے پاکستان کے ہر دلعزیز لیڈر مانے گئے اور تمام صوبوں میں آپ کے چاہنے والے موجود تھے جب جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا اور میاں صاحب جیل میں گئے پھر سعودی عرب 8سال گذارے اور واپس وطن آئے مگر آپ کے کچھ ساتھی آپ کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور علیحدہ جماعت بنالی اور ڈکٹیٹر کے ساتھ ہوگئے۔اب آپ کا امتحان ہے۔
2008ءکے الیکشن میں آپ نے پاکستان کے مختلف حصوں میں نشستیں حاصل کیں مگر صرف پنجاب میں آپ کو فوقیت میسر آئی۔ سابق صوبہ سرحد کے لوگ خاص کر ہزارہ کے لوگ پکے مسلم لیگی تھے آپ کی عزت کرتے تھے مگر آپ نے نیشنل عوامی پارٹی سے دو مرتبہ تعاون کیا ایک بار کالا باغ ڈیم کی تعمیر آپ نے ان کے کہنے پر روک دی،دوسرا صوبہ سرحد کا نام آپ کے تعاون سے تبدیل ہوا۔ تقسیم ہند سے قبل بھی ہزارہ مسلم لیگ کا اڈا تھا اور کانگریس کے مقابلہ میں 1946ءکے الیکشن میں ہزارہ سے دس سرحد ممبران اسمبلی میں منتخب ہوئے اور اب ہزارہ میں آپ کا ووٹ کم ہوگیا۔اسی طرح سرحد میں آپ کے ممبران کم ہوگئے۔
اس وقت مرکزمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جن کے ساتھ 4سال مرکز میں تعاون کیا اور بعد میں اپوزیشن میں (دوستی کی اپوزیشن) میں ہوئے۔ اس سے آپ کی پارٹی مسلم لیگ(ن) کے وقار کو نقصان ہوا۔ادھر پنجاب میں آپ کی حکومت سے سرکاری اہلکار خوش نہیں، کلرک،پیرا میڈیکل سٹاف، نرسز،لیڈی ہیلتھ وزیٹر، ڈاکٹرز،طلبا اور ٹیچرز سب نے آپ کی حکومت کیخلاف ہڑتالیں کیں، جلوس نکالے اور لوگوں کی ہمدردیاں دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ ہورہی ہیں۔
انتظامی طورپر شہر لاہور گندگی کا اڈا ہے۔کسی علاقہ میں آپ کے منتخب نمائندے علاقے میں نہیں جاتے۔ لوگ بدظن ہیں اور جو رہ گئے ہیں و ہ بھی بدظن ہوتے جارہے ہیں۔مہنگائی ہے اور پولیس راج ہے۔دن دھاڑے لوٹ مار ہے،انتظامیہ ہر جگہ فیل ہے۔سرکاری ہسپتال میں مریض زیادہ ہیں۔ڈاکٹر ز کم ہیں جو ہیں وہ خوش نہیں کیونکہ آپ کی پنجاب حکومت انتظامی اُمور میں کم دلچسپی لیتی ہے۔ سیکرٹریٹ میں کام نہیں ہوتا۔ اپنے ”آشیانہ اور دانش سکول“ کا اجراءکیا اور ” لیپ ٹاپ“ ذہین طلبہ میں تقسیم کئے اس سے بھی ووٹ نہیں ملیں گے۔ (جاری ہے)