قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین،آرمی چیف،اہم دفاعی وحکومتی شخصیات اور سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیر اعظم کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کسی بھی گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائیگی۔وطن عزیز میں اندروانی اور بیرونی دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی قیادت میں سکیورٹی اداروں نے بہت سے آپریشنز کیے جن میں آپریشن راہ راست، راہ نجات،آپریشن خیبر،رد الفساد،ضرب عضب،کومبنگ اور آپریشن المیزان سمیت دیگر چھوٹے بڑے آپریشنز شامل ہیں۔ان کارروائیوں میں فورسز نے دشمنوں کے خلاف ایک صبرآزما جنگ لڑی اور بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ جب دشمن کو یہ لگا کہ پاکستان کی جانب سے ان کی کارروائیوں کو ایک عزم سے نشان عبرت بنایا جا رہا ہے تو اس نے دیگر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دئیے ہیں۔
پاکستان کے بزدل دشمن اب روایتی جنگ کی بجائے مذموم کارروائیوں کا سہارا لے کر ملک میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتا ہے۔ انہیں غیر روایتی حربے یا طریقے بھی کہا جاتا ہے جن کا مقصد کسی ملک کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا کر اسے سیاسی،معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور اور تنہا کر ناہوتا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان بھی اس مسئلے سے دوچار ہے کیونکہ اس کے دشمن نہیں چاہتے کہ یہ ترقی کرے اور مستحکم ہو۔ غیر روایتی حربوں میں ہائبرڈ وار فیئر یا ففتھ جنریشن وار سر فہرست ہے۔ اس جنگ میں حملہ آور سامنے نہیں آتا بلکہ وہ پوشیدہ رہ کر خفیہ طریقے سے ملکی سلامتی پروار کرتا ہے۔اس طرح یہ بھی دہشت گردی کی ہی ایک شکل بن جاتی ہے۔پاکستان کی سِول اور عسکری قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ دشمنوں نے پاکستان پر ہائبرڈ وار فیئر یعنی ایک کثیر الجہتی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کا مقصد ملک کو غیرمستحکم کرنا اور اسے دفاعی واقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔اس جنگ میں عموماً نظریاتی ساکھ پر وار کیا جاتا ہے اور ریاست مخالف نظریات کو ہوا دے کر ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اس کے بعد عوام کے اندر بے چینی پھیلا کر افراتفری اور انتشار کے ذریعے ملک کو انارکی اور بد امنی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔بدقسمتی سے اس سارے عمل میں نوجوانوںکو خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے اذہان کو پراگندہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کا اداروں پر اعتماد کم ہو جائے۔یہ ایک بھیانک طریقہ کار ہے جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آتا مگراس کے نتائج انتہائی تباہ کن اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کئی موقعوں پر ایسے عناصر کو متنبہ کر چکے ہیں کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رہیں۔
پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ایک انتہائی مہلک صورت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی معلومات بھی ہیں جنہیں بہت سے لوگ بالخصوص نوجوان بنا سوچے سمجھے اور بنا تحقیق کیے سچ مان لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پر ایک خاص طریقہ کار اپنایا جاتا ہے جس میں لوگ کھلم کھلا سامنے نہیں آتے بلکہ وہ مختلف گروپوں کی شکل میں سادہ لوح عوام اور نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف جھوٹی معلومات پر مبنی کئی بیانیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ادارے عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے ایکو چیمبرز کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ان کا کردار انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔یہ نوجوان نسل کے اذہان میں ایسا زہر گھول دیتے ہیں جس کا تریاق ڈھونڈنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں آج کل تین قسم کی اصطلاحیں یعنی مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور مال انفارمیشن بہت عام ہیں جن کے بارے میں جاننا ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ ہم سب اس پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکیں۔بظاہر ان تینوں میں معمولی فرق پایا جاتا ہے مگر ان کا استعمال اس مہارت سے کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ا س کا شکار ہو جاتی ہے۔یہ تینوں حربے جھوٹی معلومات اور فیک نیوز کو پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ افواج پاکستان اس پروپیگنڈے اور ان تمام حربوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہیں، تاہم ہم سب پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے شعور و آگہی میں اضافہ کریں اور سوشل میڈیا پر پائے جانے والے ایسے تمام گروہوں سے باخبر ر ہیں جو ملکی سلامتی، عوام اور قومی و عسکری اداروں کے درمیان دراڑ ڈال کر نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔
پاک فوج ہر دہشت گرد کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے۔ پاکستان کی ریاست اور افواج نے انتشاری گروہوں کو ہمیشہ واضح پیغام دیا ہے کہ جو لوگ ہتھیار ڈال دیں اور راہِ راست پر آجائیں،ان کے لیے عام معافی اور اصلاح کا موقع موجود ہے لیکن جو لوگ دہشت گردی کا راستہ اپناتے رہیں گے، ان کے لیے اس سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دہشت گردوں کو پاک سرزمین پر قدم جمانے کا موقع ہرگز نہیں دیا جائے گا۔
دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے دیگر اقدامات کی طرح پاک افغان بارڈر سکیورٹی سسٹم کو بھی مضبوط بنایا گیا ہے۔پاک افغان سرحد پر مختلف چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جو بیرونی دہشت گردی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سرحدی نظام اگر بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دے دیا جائے تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لیے پرعزم نظر آتا ہے لیکن بد قسمتی سے افغانستان کی قیادت میں اس عزم کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر خطے میں دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو افغان قیادت کو بھی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔دہشت گردی کے خاتمے میں افواج اور عوام جس قدر متحد اور پر عزم ہیں،اس سے لگتا ہے کہ دہشت گرد بہت جلد اپنے منطقی انجا م کو پہنچنے والے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان محبت و الفت اور اتحاد و یکجہتی کا یہ پاکیزہ رشتہ ہمیشہ قائم رہے کیونکہ یہ رشتہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت ضروری ہے۔
دہشت گردی کیخلاف قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ
Mar 20, 2025