جمہور اور دستور

اِمامِ صحافت جناب مجید نظامی کے زریں اقوال میں سیایک قول یہ بھی ہے کہ خواہشوں اور فرمائشوں پر لکھے جانے والی تحریریں کبھی معتبر نہیں ٹھہرتیں تاآنکہ وہ حقیقت پر مبنی نہ ہوں چونکہ اس خاکسار نے تقریباً آج سے پندرہ سال پہلے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ہی جناب مجید نظامی مرحوم کے سکول آف تھاٹ سے کیا تھا لہٰذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ انکے طے کردہ اصولوں سے روگردانی کا مرتکب ہو اور انکے اقوال پر پہرہ نہ دے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی لیڈرشپ کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے اس خاکسار کی آشنائی ہے لہٰذا جب بھی حقیقتوں پر مبنی کالم لکھتا ہوں تو ان احباب کی طرف سے کسی نہ کسی ذریعے سے اگر ناراضگی نہ بھی کہیں تو محتاط زبان میں لفظ تحفظات کا اظہار ضرور ہوتا ہے۔ مجھے اس سلسلے میں انکے اس رویے سے کبھی شکایت نہیں ہوئی کیونکہ راقم سمجھتا ہے کہ یہ لوگ بھی ہمارے اسی سماج کا ایک حصہ ہیں جہاں عدم برداشت کا کینسر ہر شخص کی رگ رگ میں سرائیت کر چکا ہے جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی کا سچ سْننا چاہتے ہیں۔
مرضی کے سچ کے برعکس زمینی حقائق کی بات کریں تو حالیہ الیکشن میں جو ‘‘ کالی سیاہی’’ ہمارے سسٹم کے چہرے کا مقدر بنی ہے اسے صدیوں بھی دھوتے رہینگے تو وہ داغ شائد پھر بھی نہ مٹ سکیں لیکن اس پورے پراسس نے جسطرح ہر فریق کا چہرہ بے نقاب کیا ہے اس پر مورخ ایک بات ضرور لکھے گا کہ جن حقیقتوں کو بیان کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا وہ تمام سچائیاں اس پراسس نے بالکل اس طرح عیاں کر دی ہیں جیسے بہتا پانی، چاہے وہ نہر کا ہو دریا کا یا سمندر کا، تعفن زدہ لاش اپنے وجود سے باہر پھینک دیتا ہے۔ موضوع بہت ہی حساس ہے لہٰذا کوشش ہو گی کہ ایک ایک لفظ پوری ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ لکھا جائے۔ بعض اوقات حقائق کی طرف توجہ دلانے کیلئے تاریخ سے کچھ اْن حوالاجات کا سہارا لینا پڑتا ہے جنکو قصداً چاہتے ہوئے بھی آپ ovoid نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کا ایک حوالہ بھارت کے حوالے سے ہے کیونکہ اس سے اچھی مثال شائد ہی کوئی ملے۔ کہتے ہیں اندرا گاندھی کا دور حکومت تھا اور ایمرجنسی کے فیصلے کے حوالے سے انداگاندھی بہت زیادہ تنقید کی زد میں تھیں کہ اسی اثناء میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر مرار جی ڈیسائی کو فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا "اگر آپ کو ہم سے کسی طرح کی مدد درکار ہو' تو ہم اس کے لیئے حاضر ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس پر مرارجی ڈیسائی نے فورا اندراگاندھی سے رابطہ کیا اور کہا" اپنے جنرلوں کو سنبھال کے رکھو وہ سیاست میں مداخلت کی تیاریاں کر رہے ہیں’’ پھر جو ہوا وہ وہاں کی تاریخ کا حصہ ہے۔ قارئین آج جب اس وطن عزیز کے بیشتر سیاستدان اسٹیبلشمنٹ پر بیجا مداخلت کا رونا رو رہے ہیں تو اس مقام پر اگر فکری اساس کے لوگ ان سے یہ سوال کریں کہ کیا آپ میں سے کوئی ایسا مرد مجاہد ہے جس نے اپنے وقت پر مرار جے ڈیسائی جیسا کردار نبھایا ہو اور اقتدار کے حصول کیلیئے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کو استعمال نہ کیا ہو تو پھر بات بنتی ہے اور اگر آپ میں سے ہر کسی کا ماضی ان دو رنگی چالوں سے عبارت ہے تو پھر یہ منافقت کیسی؟ بات چل نکلی ہے تو پھر کچھ اور تلخ حقیقتوں کو بھی کھنگالنا پڑیگا۔ ہماری ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم سیاستدانوں نے اپنے طور پر اپنے آپکو نہ کبھی ایک institution کی طرح لیا ہے اور نہ کبھی بطور انسٹیٹیوٹ behave کیا ہے جبکہ جس دوسرے فریق اسٹیبلشمنٹ کو ہم اپنا حریف جانتے اور گردانتے ہیں وہ ہر لحاظ سے ہر مقام پر ہر طریقے سے اپنے آپکو ایک مربوط ادارہ پیش کرتا اور ثابت کرتا آ رہا ہے۔ محتاط الفاظ میں کہوں کہ نو مئی کا واقعہ اسکی روشن مثال ہے تو پھر شائد مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسکے برعکس ہر سیاسی پارٹی کو دیکھ لیں وہاں پر آپکو کہیں نہ کہیں ایک خلاء ضرور ملے گا۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟
اسکا سادہ سا جواب ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں کے اندر کوئی میکانزم موجود ہی نہیں جو کسی بھی ادارے کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی ایک ایسی سیاسی پارٹی کا نام بتا دیں جس نے صدق دل سے اپنے اندر دستوری اور اصلی الیکشن کروائے ہوں۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں اپنی پارٹی کے اندر سے دستوری اور جمہوری طریقے سے نہیں اْبھرتیں جبکہ باہر ہر وقت وہ جمہور اور دستور کی رٹ لگائے رکھتی ہیں جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کہیں ہم یہ نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ ‘‘ جمہوریت بہترین انتقام ہے’’ کوئی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ‘‘ ووٹ کو عزت دو’’ اور کوئی بڑے دھڑلے سے یہ دعوے کر رہا ہوتا ہے کہ ‘‘ ہم کوئی غلام ہیں’’ لیکن جسطرح ہر مسلمان نماز کے وقت اپنا منہ قبلہ شریف کی طرف کیئے ہوتا ہے اسی طرح ہمارا ہر سیساستدان اپنی سیاست کیلیئے اپنا رْخ جی ایچ کیو کی طرف کیئے ہوتا ہے۔
یہ میرا ہمزاد بھی بہت ہی نرالی چیز ہے، کالم کے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہوں اور یہ آ وارد ہوا ہے پوچھ رہا ہے جن پارٹیوں کے اندر قیادت کے حصول کیلیئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہوں اْن سے کوئی اْمید رکھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی یا مداخلت کے خلاف کوئی کردار ادا کر سکیں، کیا یہ ایک دیوانے کا خواب نہیں۔ راقم نے کہا کچھ سمجھا نہیں۔ کہنے لگا بھولے بادشاہ سب سے بڑی سیاسی پارٹی کہلانے والوں کی قیادت کو دیکھو کس سطح پر کس طرح کے وکلاء کے ہاتھوں کھیل رہی ہے، آٹھ فروری کے الیکشن میں ایک پارٹی کے بڑے بڑے اسٹار بیٹسمینوں کی اڑی وکٹوں کو دیکھو اور پھر سندھ کابینہ کی فارمیشن میں وہاں جسطرح بھٹو شہیداور بینظیر شہید کی فلاسفی پر چلنے والے لوگوں پر پنچایتی گروپ کو اہمیت دی جا رہی ہے ان تمام زمینی حقائق کے ہوتے ہوئے بھی اگر کچھ سمجھ نہیں سکتے تو پھر لکھنا چھوڑ دو۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن