جمعۃ المبارک ‘ 24 ؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 20 ؍ مارچ 2020 ء
سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی ، سینٹرز اور میئرز کا ایک ماہ کی تنخواہ کرونا فنڈز میں دینے کا اعلان
جو کام اچھا ہو اس کی تعریف میں بخل نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح جو کام غلط ہو اس کی مذمت بھی ضروری ہے۔ اس وقت کرونا کے ہاتھوں جس طرح دنیا والوں کی مرمت ہو رہی ہے اس سے کیا بڑے کیا چھوٹے تمام ممالک بے حال ہیں۔ عالمی معیشت ڈانواں ڈول ہے تو ہماری بساط کیا بقول شاعر …؎
میری بساط ہی کیا میں ہوں برگ آوارہ
اڑا کے لے چلے مجھ کو جدھر ہوا چاہے
ہماری معیشت کچھ زیادہ ہی لڑ کھڑا رہی ہے۔ ملکی خزانہ ہمیشہ کی طرح خالی ہے ہر حکمران یہی کہتا ہے کہ سابق حکمران خزانہ خالی کر گئے۔ اس لیے اس کے بھرنے کی نوبت نہیں آتی۔ ایسی صورتحال میں کوئی ہنگامی صورتحال آ جائے تو اسی خالی خزانے کی وجہ سے عوام کو خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ البتہ اشک شوئی اور لیپا پوتی کے تحت اونٹ کے منہ میں زیرے جتنی امدادی کارروائیاں ضرور ہوتی ہیں۔ مگر اب اسی صورتحال میں سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی سنیٹرز اور میئرز نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ کرونا امدادی فنڈز میں دینے کا اعلان کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ خدا کرے اب باقی صوبوں کے ارکان اسمبلی سینٹرز اور میئر حضرات بھی اس جذبہ سے کام لیں۔ سندھ حکومت نے بھی خشک راشن کے 20 لاکھ بیگز غریبوں میں تقسیم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ اس طرح کم از کم غریبوں کی مشکلات میں کچھ کمی ہو گی۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی کرنے والوں کیخلاف سخت اقدامات کی ہے۔ اس پر بھی خاص توجہ دی جانی چاہئے۔
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ ضیاء گروپ کے الیکشن۔ اعجازالحق 3 سال کے لیے بلامقابلہ صدر منتخب
یک رکنی جماعت یا یوں کہہ لیں سیاسی زبان میں مروجہ جملے تانگہ پارٹیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ ان میں الیکشن کرانے کی تگ و دو زیادہ نہیں کرنا پڑتی۔ بس ازخود اعلان کر کے پارٹی کا رہنما اپنی بلامقابلہ کامیابی کا فوری اعلان کر دیتے ہیں۔ نہ کوئی مقابلہ میں ہوتا ہے نہ آتا ہے۔ یوں حَس کم جہاں پاک۔ مخالف فریق یا دھڑے بندی کی سازشوں اور ہنگامہ آرائی سے بھی نجات ملتی ہے۔ باقی بڑی جماعتوں میں یہی سازشیں ، دھینگا مشتی اور ہلے گلے کی وجہ سے پارٹی الیکشن اول تو ہوتے ہی نہیں اگر ہوں تو باعث رحمت نہیں باعث زحمت بنتے ہیں۔ اب اعجاز الحق صاحب بھی مسلم لیگ ضیا گروپ کے کرتا دھرتا ہیں۔ انہیںایک بار پھر 3 سال کے لیے بلامقابلہ صدر منتخب قرار دیدیا گیاہے سو ان کو یہ کامیابی مبارک ہو۔ اب وہ اپنی ضیا لیگ کو مزید تین سال اپنے خون جگر سے سینچیں گے۔ فی الحال تو یہ ایک بنجر پارٹی ہے جس میں نہ پھل اُگتا ہے نہ پھول۔یہی حال دیگر جونیجو لیگ ، مشرف لیگ ، جناح لیگ ، شیخ لیگ کا بھی ہے۔ اگر یہ سب یکجا ہو کر متحدہ لیگ ہی بن جائیں تو شاید تانگے کی سواریاں پوری ہو سکتی ہیں۔
چمن سپین بولدک بارڈر کھلا رکھنے پر عمران کے شکر گزار ہیں۔ عبداللہ عبداللہ
اس مشکل وقت میں جب پوری قوم کرونا کی سولی پر لٹکی ہوئی ہے۔افغان ٹریڈ کے نام پرچمن بولدک بارڈر کھلا رکھنا ’’آبیل مجھے مار‘‘ والی بات ہے۔ اس وقت ایران اور افغانستان سے کرونا کا کوئی بھی بڑا حملہ ہمارے لئے کاری وار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران بارڈر بروقت بند نہ کر کے ہم پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اب افغان رہنما عبداللہ عبداللہ کے اظہار تشکر نے تو ہمارے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ ورنہ لوگ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ افغان بارڈر بند ہے۔ لگتا ہے طورخم ہی بند ہے۔ چمن بارڈر تو پاکستانی فلموں کی طرح ’’سنسر کی پابندیوں سے آزاد‘‘ کا ٹیگ لگائے کھلا ہے۔ حکومت ذرا ہوش کے ناخن لے تجارت اور دوستی کے نام پر عوام کو قربانی کا بکرا نہ بننے دے۔ افغان حکمران کبھی ہمارا بھلا نہیں چاہیں گے۔ ان کی تو خواہش ہو گی کہ ہم کروناکے عذاب میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوں۔ اس لئے اگر یہ تجارت ضروری ہے جس کے بنا ہمارا گزارہ نہیں ہونا تو چمن بولدک بارڈر پر بھی سخت ترین حفاظتی انتظامات کئے جائیں۔ ورنہ بلوچستان کے یہ دونوں ایران افغان بارڈر ہمارے لئے سخت خطرناک ہیں۔ فی الحال یہ تمام بارڈر بند ہونے چاہئیں۔ اس وقت ہم کرونا سے بچائو کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس وقت کسی کو رعایت دینا خطرناک ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
مسلمان اپنے مردے جلائیں بھارت میں جگہ نہیں رہی۔ بی جے پی کے رہنما ساکھشی مہاراج کی نئی درفطنی
کچھ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے کوئی انسانیت ہوتی ہے مگر ان لوگوں میں کہاں جن کی آنکھوں پر تعصب اور مسلم دشمنی کی پٹی بندھی ہوئی ہے پہلے تو مودی سرکار نے کشمیریوں پر وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بربریت کی شام کردی پھر شہریت بل لاکر مسلمانوں کوبھارت سے دیس نکالاد ینے کی سازش کی اور اب ایک طرف پوری دنیا بھارت سمیت کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے تو دوسری طرف مودی کے حواریوں کو کیا سوجھ رہی ہے؎
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
مسلم دشمن انتہا پسند مسلمانوں کے قاتل ساکھشی مہاراج کو لگتا ہے تاریخ یاد نہیں مسلمان آج سے نہیں ایک ہزار سال سے برصغیر میں رہ رہے ہیں مگر کہیں بھی ان کے مردے دفنانے سے یا قبرستان بنانے سے جگہ کم نہیں ہو گی۔ اگر بھارت سے یہ 22 کروڑ مسلمان سنبھالے نہیں جاتے تو پھر جلد یا بدیر اسے ان سے نجات پانے کیلئے انہیں علیحدہ ملک یا ایک نیا پاکستان دینا پڑے گا۔ جہاں وہ مردے دفنائیں یا قبرستان بنائیں کسی ساکھشی مہاراج جیسے انتہا پسند ہندو کو اس پر تکلیف نہیں ہو گی۔ سینکڑوں برسوں سے کروڑوں مسلمان فوت ہوئے دفنائے گئے مگر آج تک ان مردوں سے انکے قبرستانوں سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔ اب بی جے پی والوں کو اصل تکلیف بھارت میں موجود 22 کروڑ مسلمانوں سے ہے۔ جن کا وہ قتل عام کرکے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
٭٭٭٭٭