نوٹ:1۔تمام قارئین سے گزارش ہے کہ رب العالمین کے حضور سر بسجود ہو کر وطن اور اہل وطن کی سلامتی کی دعا فرمائیں۔ 2۔ہم اپنے شہدائے وزیرستان کے لئے دعاگو ہیں کہ رب العالمین ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین!3۔ہم اپنے وطن کے محافظوں کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
معلوم نہیں کس نے کہا تھالیکن بات بڑے پتے کی کی۔ وہ یہ کہ ’’ بنیا بہت اچھا نوکر تو ثابت ہو سکتا ہے لیکن اچھا ماسٹر کبھی نہیں بن سکتا‘‘۔ اسکی ایک زندہ مثال ہندوستان کے حکمرانوں کی ہے۔ تاریخ میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ مسلمان حکمرانوں نے ہندووں کے ساتھ کہیں زیادتی کی ہو۔ انہوں نے ہندووں کے ساتھ بہت اچھا بلکہ ترجیحی سلوک کیا۔ انہیں جاگیریں عطا کیں۔ حکومت میں بڑے بڑے عہدوں سے نوازا۔ نیکی کا بدلہ تو نیکی ہوتا ہے لیکن ہندو بنیا واحد قوم ہے جو نیکی کا بدلہ الٹ دیتی ہے۔ جب سے ہندوستان آزاد ہوا ہے اور حکمرانی بنیا لوگوں کے پاس آئی ہے۔ ہندوستان کے رہائشی مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی رہی ہے جو اب تک جاری ہے۔
نریندر مودی ایک کٹر ہندو اور مسلمان مخالف سیاستدان ہے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کا ممبر ہے جس کا بنیادی مقصد ہندوستان میں ایک خالص ہندو ریاست قائم کرنا ہے۔یعنی انتہا پسند ہندو حکمرانی اور ایسا مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال کر یا انہیں ختم کر کے ہی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے ہر ہندو حکمران نے مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور یہی کچھ اب مودی صاحب مزید شدت سے کررہے ہیں۔حالانکہ ہندوستانی مسلمان پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ وفادار اور وطن پرست ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی چار جنگیں ہو چکی ہیں لیکن آج تک کسی ہندوستانی مسلمان نے اپنے ملک سے غداری نہیں کی۔ بھارتی فوج میں مسلمان سپاہی پاک بھارت جنگوں میں دل کھول کر پاکستان کے خلاف لڑے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ پھر بھی بھارتی قیادت کو مسلمان پسند نہیں۔ پہلے گجرات میں مودی نے دو ہزار بے گناہ مسلمانوں کو مروایااور اب پورے بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہے۔ ستر کے قریب شہادتیں ہو چکی ہیں اور اس کالم کی اشاعت تک نجانے یہ تعداد بڑھ کر کتنی ہو جائیگی۔ مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو چن چن کر لوٹا گیا ہے اور جلایا گیا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کو بچانے کی بجائے پولیس بلوائیوں کی مدد کرتی ہے۔ہندو نوجوان ’’ جے شری رام ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھاگ بھاگ کر مسلمانوں کو مارتے ہیں اور انکے گھر جلاتے ہیں۔ مساجد اور مزارعات کا احترام بھی نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں بھی جلایا گیا۔ مسلمان اب کسمپرسی کی حالت میں خیراتی کیمپوں میں پڑے ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ انہیں اپنے گھر واپس جانا نصیب نہیں ہوگا۔ سب مایوس اور دلبرداشتہ ہیں۔ انہیں شہریت سے بھی فی الحال محروم کر دیا گیا ہے ۔نجانے ان بیس کروڑ مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو کرتار پور راہداری کھولنے کا جواب دیا جا رہا ہے اور یہ معاملہ بہت دور تک جائیگا۔
ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ بنیا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر کام بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ ہماری طرح وقتی کاروائیاں نہیں کرتا۔ اس کی ایک تازہ مثال مسئلہ کشمیر ہے جوستر سالوں تک اقوام متحدہ کی فائلوں میں دبا رہا۔پاکستان کی تمام تر کوششیں بے سود ہیں۔اب امریکی صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان کشمیر پر ثالثی کی بات کی تو مودی نے فوراً کشمیر کا خصوصی مرتبہ ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر لیا۔ کشمیری عوام جو مسلمان ہیں اور کشمیر کی آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں انہیں دبانے کیلئے کشمیر میں فوج بھیج کر کرفیو لگا دیا۔ آج سات ماہ گزرنے کے بعد بھی صورتحال ویسی ہی ہے ۔کشمیری راہنما جو زیادہ تر پرو بھارتی ہیں ان سب کو نظر بند کررکھا ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔فونز اور نیٹ کی سہولت تا حال معطل ہے اور کشمیریوں کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے ۔پاکستان نے اس ظلم اور نا انصافی کیخلاف ہر مناسب مقام پر کشمیریوں کی مدد میں آواز اٹھائی ہے لیکن ہماری تمام تر کوششوں اور چیخ و پکار کے باوجود نہ تو مودی کے کان پر جوں رینگی اور نہ اقوام عالم میں سے کسی نے ہماری پرواہ کی۔
کشمیر پر بھارتی منصوبہ بندی کی گرہیں آہستہ آہستہ اب کھل رہی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر کے تین مختلف سیاسی انتظام کے تحت کر دیا ہے۔ یوں اس سے پہلے کشمیر کی جو متحدہ آواز تھی وہ ختم ہو گئی۔دوسرا بھارت نے تمام سرکاری و غیر سرکاری مقامات کے نام تبدیل کر دئیے ہیں جو تمام ہندی ہیں۔اسطر ح مسلمانوں کے دئیے ہوئے نام ختم ہو جائینگے اور بھارتی نام زباں عام بن جائینگے۔نقشوں اور درسی کتب میں بھی نام تبدیل ہو جائینگے۔ چند سال بعد کسی بھی مقام کا اصل نام کسی کو بھی یاد نہیں رہے گا اورسارا علاقہ ہندی کے رنگ میں رنگ جائیگا۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس سب کے علاوہ بھارت جو سب سے خطرناک قدم اٹھا رہا ہے وہ غیر کشمیریوں (دوسرے الفاظ میں ہندووں کو) اس علاقے میں مستقل رہائش کا حق دے دیا ہے جو سابقہ قوانین کیخلاف ہے۔ غیر کشمیری اب یہاں مستقل رہائش بھی رکھ سکتے ہیں اور جائیداد بھی خرید سکتے ہیں۔دولتمند ہندو یہاں آکر جائیداد خریدنے کیلئے بیقرار ہیں۔ حکومت بھی انکی مدد کررہی ہے۔ حکومت کی مسلمانوں کے خلاف بد نیتی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت آر ایس ایس کو چھ ہزار کنال زمین فقط ایک روپیہ فی کنال کے حساب سے الاٹ کررہی ہے۔ یہ تو ہم سب کو پتہ ہے کہ آر ایس ایس ایک انتہا پسند ہندو تنظیم ہے جو مسلمانوں کی سخت مخالف ہے ۔ یہ لوگ مسلمانوں کو آہستہ آہستہ جائیداد سے محروم کریں گے اور پھر ہر وقت فسادات کے ذریعے انہیں اتنا تنگ کرینگے کہ انہیں بھاگ کر آزاد کشمیر میں پناہ لینی پڑیگی ۔ہریانہ کے وزیراعلیٰ نے خوبصورت کشمیری لڑکیوں پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اپنے لوگوں کو خوشخبری سنا دی ہے کہ اب وہ بنگالی اور بہاری کالی لڑکیوں کی بجائے کشمیر کی گوری چٹی صحت مند لڑکیوں سے شادی کریں تو یوں کشمیر یوں کے مستقبل کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
بھارت کی ایک اور شاندار ڈپلومیٹک کامیابی افغانستان میں ہے۔بھارت نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک ایسی نفرت کی دیوار کھڑی کی ہے کہ شروع سے افغانستان پرو بھارت ہے۔ یہ واحد ملک ہے جس نے 1948 میں اقوام متحدہ کی ممبر شپ کے لئے پاکستان کی مخالفت کی اور ہر فورم پر آج تک مخالفت کرتا آرہا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی صاحب بھارت کے قدموں میں بیٹھ کر شانتی حاصل کرتے ہیں۔ حالیہ امریکہ طالبان معاہدہ پاکستان کی کوششوںسے طے پایا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوا ہے۔ اس معاہدے میں افغانستان اور بھارت دونوں پاکستان کے مقابلے میں بہت شرمندہ ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کو معاہدے سے دور رکھا گیا ہے۔ بھارت کی افغانستان میں کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ دوسرا بھارت کی نظریں افغانستان کی معدنیات پر ہیں اور تیسرا بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان میں دہشت گردی کراتے ہیں ۔لہٰذا بھارت نے اشرف غنی کے ذریعے اس معاہدے کی بنیادی حیثیت اور قیدیوں کے تبادلے پر اعتراض اٹھا دئیے ہیں جس سے امن کے امکانات ایک دفعہ پھر خطرے میںنظر آتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ترک صدر، ملائیشیا کے وزیر اعظم اور پاکستانی وزیر اعظم نے مل کر ایک متحدہ بلاک بنانے کا سوچا تھا۔ ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد نے بھارت میں مسلمانوں کیخلاف شہریت بل اور کشمیریوں کی کسمپرسی پر مزید تنقید کی جس کا بھارت نے بہت برا منایا اور ملائیشین پام آئل خریدنے سے انکار کر دیا جس کا ملائیشیا کو بہت نقصان ہوا۔ اب ملائیشیا کی سیاست میں ایک ایسا بھونچال آیا ہے کہ مہا تیر محمد کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑااور اسکا پا رٹی مخالف انور ابراہیم اقتدار میں آگیا ۔کچھ لوگوں کے مطابق یہ بھی بھارت کی کارستانی ہے کیونکہ ملائیشیا میں کافی زیادہ ہندو آبادی ہے جو بہت با اثر ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38