اگرچہ تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل سے کم ہونے سے پاکستان کے امپورٹ بل میں نمایاں کمی آ سکتی ہے مگر ضروری ہے کہ تیل کی قیمتوں سے کمی کو بروقت عام صارفین اور ایکسپورٹرز کی انڈسٹری کو منتقل ہو۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے کارخانوں کیلئے بجلی کی قیمتوں میں کمی واقع ہو۔ چین کی فیکٹریاں بند ہونے سے امریکہ اور یورپ کے ٹیکسٹائل مصنوعات کے آرڈرز پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کو منتقل ہو سکتے ہیں مگر ضروری ہے کہ کرونا کی وبا پر پاکستان امریکہ اور ان یورپی ممالک میں بروقت قابو پا یا جائے۔ وگرنہ لاک ڈائون کی صورت میں جب صارفین کیلئے مارکیٹس بند ہونگی تو وہاں کی کمپنیاں امپورٹس بند کردیں گی اور ابھی تک تو یہی صورتحال ہے کہ غیر ملکی درآمد کنندگان پاکستان اور دوسرے ایشیائی ممالک سے دئیے گئے آرڈر نہ صرف منسوخ کر رہے ہیں بلکہ جو شپمنٹس وصول کر چکے ہیں انکی ادائیگیاں بھی روک چکے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ شرح سود کی وجہ سے غیر ملکیوں نے مختصر مدت کیلئے سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے سٹیٹ بنک پر دبائو ہے کہ شرح سود کم کرے۔ اس خدشے کی وجہ سے پچھلے ہفتے 600 ملین ڈالرز تک پیسہ پاکستان سے نکل چکا ہے جسکی وجہ سے ان غیر ملکیوں نے اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خریدے۔
ڈالرز کی طلب بڑھنے سے ڈالر کی شرح مبادلہ 160 روپے پر پہنچ چکی ہے۔خدشہ ہے کہ ہاٹ منی کا انخلا ایک ارب ڈالرز تک جا پہنچے گا۔
حکومت کے مطابق کرونا کی روک تھام کیلئے اسے آئی ۔ ایم ۔ ایف سے اہم رعایت مل چکی ہے۔ آئی ۔ ایم ۔ ایف اضافی اخراجات مالی خسارے میں شامل نہ کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے کرونا وائرس کے معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے کہ جس سے معاشی سرگرمیاں زیادہ متاثر نہ ہوں اشیائے خورد و نوش کی قلّت پیدا نہ ہو۔
کرونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت بتدریج خسارے کا شکار ہو رہی ہے۔ پاکستان سے یورپ ، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے ممالک کو پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔سرحدوں کی بندش ، یورپ اور امریکا میں لاک ڈائون، ائیر لائنز ، سیاحت، ہوٹلنگ اور سپر سٹورز کی بندش سے پاکستان سے پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی مغربی سرحد کی بندش سے ایران اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں کو پھلوں اور سبزیوں کی درآمد بند ہو گئی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات 15 کروڑ ڈالرز تک کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر دنیا میں لاک ڈائون کی صورتحال مئی تک جاری رہتی ہے تو اس صورت میں آم کی برآمدات بھی متاثر ہونگی۔ پاکستان کی کمزور معیشت عالمی معیشت کی یہ معاشی کساد بازاری برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ہمیں زراعت کے شعبے کی شرح نمو بڑھانی ہو گی وگرنہ پاکستان کے غیر یقینی سیاسی حالات اور آئی ایم ۔ ایف کی کڑی شرائط کے ساتھ کرونا وائرس کی وجہ سے ہم طویل ترین معاشی بحران کاسامنا کر سکتے ہیں۔
کورونا وائرس پر امریکا اور چین میں کشیدگی بڑھنے لگی ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین میں انٹرنیٹ صارفین کا خیال ہے کہ امریکہ کی فورٹ ڈیریک لیبارٹری کا کوروناوائرس سے کوئی تعلق ہے۔ اب یہ لیبارٹری پراسرار حالات میں بند کر دی گئی ہے۔پاکستان مین تعینات چینی سفیر کے خیال میں ووہان میں یہ وبا لے کر آنیوالے امریکی مشترکہ ایکسائز کرنے والے فوجی ہو سکتے ہیں۔ جس پر امریکی وزیر خارجہ نے چین کو وارننگ دی ہے کہ وہ کورونا پر گمراہ کن اطلاعات نہ پھیلائے۔ اگر اسی سازشی تھیوری پر یقین کر لیا جائے کہ امریکہ نے چینی معاشی ترقی اور دنیا پر معاشی غلبے کو روکنے کے لیے کرونا وائرس کا ہتھیار استعمال کیا تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ وائرس امریکہ میں کیوں پھیل گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جہاں اِس وبا سے نمٹنے کے لیے 50 ارب ڈالرز مختص کئے ہیں وہیں وہ خدا سے دعا بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ کی 32 ریاستوں میں سکول بند ہیں۔ نیویارک میںہوٹلز، تھیٹرز اور سنیما ہال بند ہیں۔ وائرس کے باعث امریکی سپریم کورٹ سو سال میں پہلی بار بند ہوئی ہے جبکہ نیو یارک میں مجسمہ آزادی کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ ایشیاء میں چین کے بعد کروناوائرس کا دوسرا بڑا شکار ایران ہے۔ ایران سے زائرین کی واپسی پر یہ وائرس پاکستان پہنچ چکا ہے۔ یورپ میں اٹلی اس کا دوسرا بڑا متاثر ملک ہے جہاں اِس وائرس سے 2500 کے قریب ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تقریباً سارا اٹلی ہی لاک ڈائون کا شکار ہے۔ چین میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر میڈیا پر کنٹرول کی وجہ سے دنیا کو درست صورتحال سے آگاہی نہیں ہے جبکہ امریکہ ، یورپی ممالک روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کے ذریعے اس پر اَپ ڈیٹ دے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کرونا وائرس کی وجہ سے اپنے رکن ممالک کی مدد کے لیے ایک سو ارب ڈالرز گردش میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں 50 ارب ڈالرز ترقی پذیر معیشتوں کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستانی ماہرین معیشت سٹیٹ بنک کی شرح سود میں کم از کم 2 سو پوائنٹس کی کمی کامطالبہ کر رہے ہیں تاکہ کاروباری ادارے کم شرح سود پر بنکوں سے قرض لے سکیں۔ پاکستان میں اِس وبا پر قابو پانے کے لئے ممکنہ احتیاطی تدابیر کافی ہیں مگر محض خوف کی وجہ سے مارکیٹوں، سکولوں اور کاروباری مراکز کو زیادہ عرصہ بند رکھنا درست نہیں ہے۔ تاہم وہ کاروباری افراد جوکرونا وائرس کی افواہوں کی بنیاد پر حفاظتی ماسک اور دوسری ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو اِن کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ حکومت نے معیشت کو ممکنہ اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کر دی۔ پاکستان میں چین اورایران سے آنے والے پاکستانیوں کو بغیر سکریننگ کے ائرپورٹس سے گزرنے دیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان میں ابتک کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 184 تک پہنچ چکی ہے جبکہ دنیامیں اس وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 7 ہزار سے زیادہ ہے۔ بہرحال حکومت پاکستان مناسب احتیاطی اقدامات سے کرونا وائرس کی سنگینی کو کم کر سکتی ہے۔ (ختم شد)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024