سرفراز احمد اچھے کپتان ہیں یا برے،وہ عوامی سطح پر مقبول ہیں یا غیر مقبول، انکی ٹیم میں جگہ بنتی ہے یا نہیں، کھلاڑی انکی بات سنتے ہیں یا نہیں، سلیکشن کمیٹی انکی بات مانتی ہے یا نہیں، کرکٹ کے بڑے بند کمروں میں انکی حمایت کرتے ہیں یا نہیں یہ سب باتیں قابل بحث اور غور طلب ہیں لیکن ایک حقیقت ہے کہ سرفراز احمد قسمت کے دھنی ہیں۔ تمام رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود وہ قومی ٹیم کی کپتانی کیے جا رہے ہیں۔ انہیں ان آؤٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے یا پریشر گروپ تیار کیا جا رہا ہے یا پھر کوئی اور کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مورخ لکھتا جا رہا ہے کہ عالمی کپ سر پر ہے اور قومی ٹیم کے کپتان کو آرام کا موقع دیا جا رہا ہے۔
سرفراز احمد کی کپتانی کے حوالے سے "بگ سیف" گزشتہ چند ماہ سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ کچھ مشکوک لوگ سرفراز احمد کا پیچھا کر رہے ہیں۔ وہ اسے نشانہ بنائیں گے۔ کرکٹ بورڈ اس حوالے سے کافی دیر تک پھنسا رہا جب دباؤ بہت بڑھا تو انہیں عالمی کپ کے لیے کپتان مقرر کر دیا گیا۔ اب انہیں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے لیے آرام دے دیا گیا ہے۔ ہم اسی موضوع پر بات چیت کر رہے تھے کہ لندن سے "بگ سیف" یعنی سرفراز نواز کا فون آیا کہنے لگے وہی ہو رہا جس کا مجھے خدشہ تھا کئی مہینوں سے کہہ رہا ہوں کہ سرفراز احمد کے خلاف طاقتور اور مفاد پرست مصروف عمل ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے آسٹریلیا کے خلاف "آرام" کا موقع دیا گیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان شعیب ملک کو کپتان بنانے پر ایکشن لیں۔ مشکوک کردار کے حامل کھلاڑیوں کو اہم ذمہ داریاں دینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایسے افراد موجود ہیں جو سرفراز احمد کو پسند نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ اسے اعتماد دینے کے بجائے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔ کسی بھی ایماندار کرکٹر کے لیے سازشیوں سے بچنا بہت مشکل ہے۔ لوگوں کو کرکٹ کھیلنے کو نہیں ملتی اور ہم اپنے کرکٹرز کو آرام کروا رہے ہیں۔ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کھیلنے سے کون سی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں سرفراز احمد کو ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنا کامبی نیشن بناتے، عالمی کپ سے پہلے مختلف تجربات کرتے لیکن اس اہم موقع پر کپتان کو ہی آرام کے نام پر باہر بٹھا دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کسی بھی طرح پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے میں وہی عناصر شامل ہیں جن کی وجہ سے نوے کی دہائی اور اسکے بعد مشکوک سرگرمیوں کی وجہ پاکستان کی ساکھ خراب ہوئی تھی ایک مرتبہ پھر وہی لوگ سرفراز احمد کے خلاف متحرک ہیں۔ یوں تو سرفراز نواز لندن میں ہیں لیکن پاکستان کرکٹ میں کون کیا کر رہا ہے سب خبر رکھتے ہیں۔ ان کے کسی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں یا خراب بیرون ملک بھی انکے بارے میں فکر مند ضرور رہتے ہیں کہ کس کی کیا سرگرمیاں ہیں۔
سرفراز نواز کے فون کے بعد دماغ پارٹ ٹائم کپتان شعیب ملک کی طرف گھوم گیا۔ ہمیں یاد ہے جب شہریار خان چیئرمین تھے اس وقت شعیب ملک کا قومی ٹیم میں کم بیک ہوا تھا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس وقت انہوں نے چیئرمین پی سی بی سے مل کر قومی ٹیم میں "غیر سیاسی" ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ انہیں اس شرط پر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا کہ وہ کسی قسم کے جوڑ توڑ کا حصہ نہیں ہونگے۔ ممکن ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں براہ راست کسی جوڑ توڑ کا حصہ نہ ہوں اور چیزیں خود بخود انکی طرف چلی جا رہی ہوں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ سیاست پسند ہیں اور جوڑ توڑکے ماہر مانے جاتے ہیں یہاں تک کہ ریجنل کرکٹ کی سیاست میں بھی متحرک رہتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ایک باخبر نے یہ خبر دی کہ قومی ٹیم کے موجودہ کپتان سیالکوٹ ریجن کی سیاست میں بھی خاصے متحرک ہو رہے ہیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ اسی دوران وہ قومی ٹیم کے کپتان بھی بن جاتے ہیں۔سیاست اور جوڑ توڑ کی عادت بہت بری ہے یہ جاتے جاتے بھی نہیں جاتی۔ اچھرہ میں ہمارے ایک ناظم صاحب ہیں وہ ہر بلدیاتی انتخابات کے بعد کہتے ہیں کہ بس یہ میرا آخری الیکشن ہے جب نئے الیکشن کا وقت ہوتا ہے انہیں یا ان کے ارگرد والوں کو چین نہیں پڑتا یوں وہ نئے عزم کے ساتھ سیاست اور جوڑ توڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایک مرتبہ سیالکوٹ ریجن کے سابق صدر ملک ذوالفقار کہنے لگے بس جی کرکٹ کی سیاست سے کنارہ کشی کر لی ہے اپنا کام کریں گے سیاست اب نئے لوگ کریں گے لیکن حال ہی میں ہونیوالے سیالکوٹ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ملک ذوالفقار بھرپور سیاست اور جوڑ توڑ کرتے دکھائی دیے۔ ہم نے ابھی ابھی ملک ذوالفقار کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ نے تو سیاست سے کنارہ کشی کا کہا تھا لیکن آپ تو مکمل طورپر ’’اِن‘‘ ہیں، کہنے لگے میں تو الگ ہی رہنا چاہتا ہوں یہ جو ارد گرد کے لوگ ہیں یہ نہیں چھوڑتے، کہتے ہیں ملک صاحب ہمیں میدان سیاست میں لا کر خود کیوں الگ ہو رہے ہیں۔ بس پھر دوستوں کی خواہش پوری کرنے کیلئے سیاست تو کرنی پڑتی ہے۔ شعیب ملک ایک اچھے اور تجربہ کار کرکٹر ہیں لیکن کپتانی میں انکا ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کچھ منفی چیزیں بھی جڑی ہیں پھر سیاسی جوڑ توڑ کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ سرفراز احمد کی کپتانی اور اس حوالے سے موجودہ حالات سازگار نہیں ہیں۔ عالمی کپ میں ٹیم کی کپتانی ہر کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے۔ سرفراز احمد ٹیم کو لے کر چل رہے ہیں انہیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ بداعتمادی کی فضا سے نقصان ملکی کرکٹ کا ہے۔
خواہشات کے حصول میں اکثر اقتدار کے کھلاڑی قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ دعا ہے کہ قومی ٹیم عالمی کپ جیسے ایونٹ سے پہلے ہر قسم کی دھڑے بندی و اختلافات سے محفوظ رہے اور ایک ٹیم کی طرح برطانیہ میں ہونے والے ورلڈکپ میں شرکت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024