مسلم دنیا کیخلاف نسلی و مذہبی منافرت ابھارنے والے عالمی سلامتی کو دائو پر نہ لگائیں
نیوزی لینڈ کے بعد ہالینڈ‘ برطانیہ اور جاپان میں بھی سفاکانہ دہشتگردی اور مسلم قیادتوں کے تفکرات
ہالینڈ کے شہر اتریخت میں ٹرام پر فائرنگ سے تین مسافر ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ میئر اتریخت نے اس واردات میں تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ٹرام سٹیشن پر فائرنگ میں 37 سالہ ترک شہری ملوث ہے جس کی گوکمان ثانس کے نام سے شناخت کرلی گئی ہے۔ ملزم فائرنگ کے بعد فرار ہوگیا تاہم بعدازاں اسے گرفتار کرلیا گیا۔ فائرنگ کے بعد جرمنی کی سرحد پر سکیورٹی سخت کردی گئی جبکہ ہالینڈ آنیوالی تمام ٹرینوں کی تلاشی جاری ہے۔ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے بعد ایک ٹرام سٹیشن کو خالی کرایا گیا ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح پونے گیارہ بجے پیش آیا۔ اس سلسلہ میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزم ٹرام پر فائرنگ کے بعد آسانی سے فرار ہوگیا تھا۔ ڈچ پولیس کے مطابق اس واقعہ میں دہشت گردی کے امکانات کی تفتیش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے سربراہ انسداد دہشت گردی ایجنسی نے بتایا کہ اتریخت میں کئی مقامات پر فائرنگ کی اطلاع ملی ہے اس لئے دہشت گردی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ فائرنگ کے بعد اتریخت میں مساجد کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔ ہالینڈ میں تعینات پاکستانی سفیر نے بتایا کہ اتریخت فائرنگ کے واقعہ میں کسی پاکستانی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
علاوہ ازیں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں انتہاء پسندوں نے دو افراد پر چاقو سے حملہ کرکے انہیں زخمی کردیا جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے تین مشکوک افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق لندن کے علاقے ویسٹ اینڈ میں 50 سالہ شخص نے ایک نوجوان کے سینے پر چاقو کے وار کئے۔ اسی طرح دوسرے نوجوان پر ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب حملہ کیا گیا۔ لندن پولیس نے تین مشکوک افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ سائوتھ ایسٹ کائونٹر ٹیررازم پولیس کے مطابق سٹین ویل میں چاقو اور بیس بال بیٹ سے مسلح پچاس سالہ شخص نے ایک 19 سالہ نوجوان پر نسل پرستانہ جملے کسے اور حملہ کیا۔ یہ انتہائی دائیں بازو سے متاثر شخص کی جانب سے دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ اسی طرح مانچسٹر میں بھی پاکستانی نژاد ٹیکسی ڈرائیور پر نسل پرستانہ جملے کسنے اور حملہ کرنے پر دو افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ دریں اثناء جاپان کے صوبہ نوچیکی کے علاقے سانو میں ایک انڈونیشی نوجوان پر چاقو سے حملہ کردیا گیا۔ زخمی انڈونیشین کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ حملہ آور فرار ہو گیا۔ پولیس نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری کیلئے تعاون کریں۔
گزشتہ جمعۃ المبارک کے روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر ایک آسٹریلوی باشندے کی جانب سے بے دریغ فائرنگ کی صورت میں کی گئی دہشت گردی کی واردات پر جس میں 9 پاکستانیوں سمیت 50 نمازی شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے‘ نیوزی لینڈ ہی نہیں‘ دنیا بھر میں سوزوسوگ کی کیفیت طاری ہے اور نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جسنیڈا آرڈرن نے جس جرأت مندانہ موقف کے تحت آسٹریلوی باشندے کی اس واردات کو ننگی دہشت گردی قرار دیکر اسکی مذمت اور اس میں متاثر ہونیوالے مسلمان خاندانوں کے ساتھ ہمدردی اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اگر باقی دنیا کی قیادتوں کی جانب سے بھی ایسا ہی موقف اختیار کرکے دہشت گردی کی اس گھنائونی واردات کی اور بلاتمیز رنگ و مذہب دہشت گردوں کی مذمت کی جاتی تو اس سے یقیناً دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے پوری اقوام عالم کے متحد و یکسو ہونے کا تصور اجاگر ہوتا اور دہشت گردوں کے مذموم ایجنڈے کو شکست دینے کی راہ ہموار ہوتی مگر عالمی قیادتوں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سراسر منافقانہ پالیسی اختیار کی گئی اور آسٹریلوی دہشت گرد پر دہشت گردی کا لیبل لگانے سے بھی حتی الوسع گریز کیا گیا جبکہ آسٹریلوی سینیٹر فریزرائڈیگ نے تو اپنے ملک کے اس دہشت گرد کی جنونی واردات کا دفاع کرتے ہوئے مسلمانوں کیخلاف کی گئی اس دہشت گردی کا بھی مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ یہی تفاخرانہ مذہبی‘ نسلی تعصب آسٹریلوی دہشت گرد کی باڈی لینگویج سے بھی امڈتا نظر آتا تھا جس نے پوری منصوبہ بندی کرکے اور نیوزی لینڈ کی حکومت کو ای میل کے ذریعے پیشگی اطلاع دیکر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور پھر ٹرمپ کو اپنا ہیرو قرار دیا جو درحقیقت مسلمانوں کیخلاف تعصب و منافرت ابھارنے والے ایک مائنڈ سیٹ کا عکاس ہے جس کے تحت دین اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرنے اور دہشت گردی کی ہر واردات کا ملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کا کلچر پروان چڑھایا گیا۔ چنانچہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی جانب سے کرائسٹ چرچ کے واقعہ پر مسلمانوں سے اظہار ہمدردی اور سوگ کی کیفیت میں ڈوبے رہنے کے باوجود دین اسلام اور مسلمانوں کیخلاف مائنڈ سیٹ کے تحت نفرت کرنیوالوں نے کرائسٹ چرچ دہشت گردی سے بھی اپنے لئے تشفی حاصل کی اور حظ محسوس کیا جس کا آسٹریلوی سینیٹر نے کھلم کھلا اظہار کیا تو لندن میں اسی روز نسلی تعصبات کے تحت سفید فام مسیحیوں نے متعدد مسلمانوں کو ہتھوڑے مار کر زخمی کیا۔
یہ مائنڈ سیٹ درحقیقت امریکی نائن الیون کے بعد اس وقت کے امریکی صدر بش جونیئر کی جانب سے مسلم دنیا کے بارے میں اختیار کی گئی متعصبانہ پالیسی کے باعث پروان چڑھا ہے جنہوں نے عراق اور افغانستان پر نیٹو فورسز کے ذریعے حملہ آور ہوتے ہوئے اسے مسلم دنیا کیخلاف کروسیڈ کا نام دیا تھا۔ اسی پالیسی کے تحت مسلم دنیا کو محض مسلمان ہونے کی سزا دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں آج ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ بھی گل کھلا رہا ہے اور ہنود و یہود و نصاریٰ کے شیطانی اتحاد ثلاثہ کی مسلم دنیا کیخلاف سازشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نتیجتاً آج اس اتحاد ثلاثہ کی پیدا کی گئی اشتعال و منافرت کی فضا سے پوری عالمی برادری سنگین خطرات کی زد میں ہے۔ آگ سے کھیلنے کے نتیجہ میں پھول تو ہرگز نہیں اگا کرتے اور امن کی فصل کی تو آبیاری نہیں ہوسکتی‘ چنانچہ مسلمانوں کیخلاف وحشت و بربریت کی اختیار کردہ اس پالیسی کا ردعمل بھی فطری امر تھا جس سے مسلمانوں کی وہ تنظیمیں بھی مذہبی انتہاء پسندی کے راستے پر چل نکلیں جن کی امریکہ ہی اپنے مفادات کے تحت فنڈنگ اور سرپرستی کرتا رہا تھا۔ ان انتہاء پسندوں نے بھی درحقیقت مسلم دنیا کو کمزور اور منتشر کرنے کی ہنود و یہود و نصاریٰ کی سازشوں کو ہی تقویت پہنچائی اور ان کیلئے دین اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسوب کرنا اور کسی بھی دہشت گردی کا ملبہ مسلمانوں بالخصوص پاکستان پر ڈالنا آسان ہو گیا۔
یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنیاد پر وزیراعظم عمران خان نے کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے بعد اقوام عالم کو باور کرایا تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جبکہ دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیچھے نائن الیون کے بعد تیزی سے پھیلنے والا اسلامو فوبیا کارفرما ہے۔ اسی پس منظر کے تحت آج ترک صدر اردوان اسلامو فوبیا میں ڈوبی عالمی طاقتوں کو باور کرا رہے ہیں کہ مسلم دنیا کیخلاف ان کا تعصب اسی طرح برقرار رہا تو پھر مسلم دنیا کو اپنی اقوام متحدہ بنانا پڑیگی۔ وہ دین اسلام اور مسلم دنیا کے دفاع میں بہت جرأت مندانہ موقف کا اظہار کرتے رہتے ہیں جو درحقیقت غیرمسلم طاغوتی طاقتوں کی سازشوں کے بزور توڑ کی حکمت عملی ہے اور ایسے کو تیسا والا کرارا جواب ہے۔ اگر مسلم دنیا کیخلاف مذہبی اور نسلی تعصبات کو ابھارنے اور اس کا ناطہ دہشت گردی کے ساتھ جوڑے رکھنے کی ہنود و یہود و نصاریٰ کی پالیسیاں اور سازشیں برقرار رہیں تو مسلم دنیا کو بالآخر اپنے تحفظ و دفاع کیلئے ترک صدر کی تجویز کردہ حکمت عملی کو ہی اپنانا پڑیگا۔ گزشتہ روز ہالینڈ‘ لندن اور جاپان میں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات کسی مجرم کا انفرادی فعل ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہالینڈ کے شہر اتریخت میں ایک ترک باشندے کی ٹرام پر فائرنگ تو بادی النظر میں نیوزی لینڈ دہشت گردی اور آسٹریلوی سینیٹر کی جانب سے اسکے دفاع کیلئے اختیار کئے گئے طرز عمل کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ آسٹریلوی نوجوان کی جانب سے متذکرہ سینیٹر کے سر پر ایک پبلک مقام پر انڈہ مارنے کی صورت میں ردعمل کا اظہار کیا گیا مگر مسلم دنیا کے بارے میں انتہاء پسندانہ تعصبات رکھنے والوں نے اس سے بھی سبق حاصل نہیں کیا اور نسلی و مذہبی تعصبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ممالک میں مقیم مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہالینڈ‘ لندن اور جاپان میں فائرنگ اور چاقو زنی کی وارداتیں بادی النظر میں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔
اگر نسلی اور مذہبی امتیاز کا تفاخرانہ انداز میں اظہار کرنیوالی ان لادین قوتوں نے اپنی سوچ تبدیل اور پالیسیوں پرنظرثانی نہ کی تو اس کا خمیازہ بالآخر پوری نسل انسانی کو دنیا کی تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑیگا۔ اگر یہ عناصر تکریم انسانیت کے ناطے اپنے ہی طبقے کی نمائندہ وزیراعظم نیوزی لینڈ کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور شرف انسانیت کے حوالے سے انکی سوچ کو مشعل راہ بنالیں تو دنیا کے امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے بصورت دیگر مسلم دنیا کیخلاف ابھارے جانیوالے تعصبات پوری نسل انسانی کیلئے زہرقاتل ثابت ہونگے۔ یہ انسانی حقوق کے تحفظ کی داعی علاقائی اور عالمی تنظیموں اور عالمی قیادتوں کیلئے بہرصورت لمحہ فکریہ ہے۔