بدھ ‘ 12 ؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 20؍ مارچ 2019ء
آسٹریلوی سینیٹر کو انڈہ مارنے والے نوجوان کا 44 ہزار ڈالر کی امدادی رقم سانحہ نیوزی لینڈ کے شہدا کے لواحقین کودینے کا اعلان
یہ نوجوان جس نے اپنے سینیٹر کے مسلم دشمن خیالات سن کر اس کے سر پر انڈہ مارا تھا۔ اپنے اس کام کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو گیا۔ کیا مسلم کیا غیر مسلم سب نے اس کی تعریف کی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی لوگوں کی اکثریت دہشت گردی کو مسلمانوں سے منسوب کرنے کیخلاف ہے۔ انڈہ مارنے کے بعد یہ نوجوان گرفتار ہوا مگر جلد ہی اسے چھوڑ دیا گیا کیونکہ انڈے سے اس سینیٹر کو کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ بخدا اگر ایسے ہی انڈہ بردار کچھ اور لوگ پیدا ہو جائیں تو دنیا کے کسی معاشرے میں دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے جوڑنے والوں کا انڈوں سے بچنا مشکل ہو جائے۔ ہر جگہ ان لوگوں کا گندے انڈوں سے استقبال ہو گا۔ دوران حراست اس کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بہادر دوست کے لیے جو تعاون کی اپیل کی اس پر دیکھتے ہی دیکھتے 44 ہزار ڈالرکی خطیر رقم جمع ہو گئی۔ یہ رقم اس نوجوان کو قانونی معاونت کیلئے اور مزید انڈے خریدنے کے لیے دی گئی تھی تاکہ وہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے جوڑنے والے دوسرے عقل سے عاری سروں پر بھی پھوڑے۔ اب اس نوجوان نے یہ ساری رقم نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے نمازیوں کے اہلخانہ میں تقسیم کر کے انسان دوستی کی ایک اور مثال قائم کر دی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی دنیا سے انسانیت ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی انصاف پسند ، امن پسند لوگ دنیا میں موجود ہیں۔ شاید انہی جیسوں کی وجہ سے یہ دنیا قائم بھی ہے۔
٭٭٭٭٭
تنخواہوں اور مراعاتوں میں اضافہ کے لیے حکومت پنجاب ڈٹ گئی
میاں نواز شریف کے علاج کی طرح لگتا ہے تنخواہوں میںاضافہ کا بل حکومت پنجاب کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ میاں صاحب کے علاج کا معاملہ جیل اور ہسپتال کے درمیان شٹل ٹرین بنا ہوا ہے تو پنجاب کے وزرا کی تنخواہوں اور مراعاتوں میں اضافہ کا بل وزیراعظم کی ناپسندیدگی کی وجہ سے چھچھوندر بن چکا ہے جو نہ اُگلا جا سکتا ہے نہ نگلا۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ پنجاب حکومت اس اضافہ پر خود کو حق بجانب قرار دے رہی ہے اور پوری اسمبلی اس کی ہم نوا ہے۔ ان کے بقول سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اب بھی پنجاب کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔ بات درست بھی ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ باقی صوبے بھرپور مراعاتوں اور بھاری تنخواہوں سے لطف اندوز ہوں اور پنجاب کے ارکان اسمبلی کو محروم رکھا جائے۔ اب دیکھنا ہے اس معرکہ کمی بیشی میں کون فتح یاب ہوتا ہے۔ فی الحال تو اس محاذ پر خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اس کے بعد امید ہے کہ راوی چین ہی چین لکھے گا۔ کیونکہ مثل مشہور ہے ، گھر آئی لکشمی کو دھتکارا نہیں جاتا۔ سو اب جو ہونا تھا ہو چکا۔ عوام کا حافظہ ویسے بھی کمزور ہوتا ہے۔ اوپر سے رمضان کی آمدآمد ہے ، ان ایام میں گرمی اور گرانی ان کی یادداشت کو مزید متاثر کر دے گی۔ لوگ یہ سب کچھ بھول بھال کر اپنے مسائل میں اُلجھ جائیں گے۔ یوں تنخواہوں اور مراعاتوں میںاضافے کے نام برپا ہونے والی یہ نورا کشتی بھی آہستہ آہستہ دم توڑ دے گی اور ارکان اسمبلی مزے لیں گے۔
٭٭٭٭٭
بلاول کے لیے تیسری مرتبہ معافی کی گنجائش نہیں: شیخ رشید
شیخ جی کو کہیں شاہ سے زیادہ شاہ پرست بننے کی کوشش مہنگی نہ پڑ جائے۔ آج کل وہ کچھ زیادہ ہی خوش گفتاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر حکومت کو ان کی خوش گفتاری پر اتنا ہی اعتماد ہے تو انہیں وزیر اطلاعات و نشریات ہی مقرر کر لے۔ اس طرح دن رات وہ میڈیا پر آ کر عوام الناس کی مزید بہتر انداز میں اخلاقی تربیت کر سکیں گے۔ پہلے لاہوریوں کی عامیانہ گفتگو اور پھلکڑ پن پر باتیں ہوتی تھیں۔ مگر اب تو شیخ جی نے کمال کردیا اور پشتو فلموں کی طرح پنجابی فلموں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسی گفتگو کا تو پنجاب کے تھیٹروں کے وہ مقبول فنکار ہی جواب دے سکتے ہیں جن کی جگت بازیوں کی وجہ سے عامیانہ جملے بازی اب ہمارے معاشرے میں عام ہو رہی ہے۔ یہ شیخ جی کی طرف سے انجن ، پسٹن اور بال بیرنگ کا تذکرہ ہی تو ہے کہ جو اب میں پیپلز پارٹی والے بھی ان کی وگ اور کپڑے اتارنے تک جا پہنچے ہیں۔ خدا جانے اس قسم کی باتوں سے ہم مخالفین کو طیش دلا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اب اگر بلاول صاحب کی طرف سے تیسرا جواب آیا تو پھر کیا ہو گا۔ شیخ جی تو تیسری مرتبہ معاف کرنے کے موڈ میں نہیں اور پیپلز پارٹی والے بھی انہیں بے لباس کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اس طرح یہ پشتو فلموں اور پنجابی سٹیج ڈراموں کی ریہرسل سرعام ہو گی اور عوام الناس لطف اٹھائیں گے یا شرم سے پانی پانی ہوں گے۔
٭٭٭٭
ٹیکس چوروں کیخلاف گھیرا تنگ کریں گے۔ اسد عمر، حماد اظہر
حکومتی وزرا کی طرف سے ایسے بیانات پہلے بھی آتے تھے۔ اب بھی آتے ہیں۔ مگر ان سب کا نتیجہ کبھی نکلتا نظر نہیں آیا۔ کئی دہائیوں سے ہر حکومت ٹیکس چوروں کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کا کہتی ہے مگر خود ان کے گھیرے میں آ کر تنگ ہو جاتی ہے۔ اب لاہور میں محکمہ ٹیکس والوں نے تاجروں سے ٹیکس وصولی کے لیے دو دو ہاتھ کرنے کا سوچا تو جواب میں تاجروں نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں ایک روزہ ہڑتال کے جواب میں ہی حکومت نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اب معلوم نہیں یہ وزرا کون سے ٹیکس چوروں کو قابو کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ بڑے بڑے پلازے۔ صنعتی ایمپائر اور جاگیردار تو خود حکومت کا ہی دوسرا نام ہیں۔ بھلا کوئی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا ہے۔ اس لیے ٹیکس چور حضرات ان وزرا کے ان بیانات کو سنجیدگی سے نہ لیں اور خاطر جمع رکھیں کیونکہ یہ بازو ان کے آزمائے ہوئے ہیں…