صدیوں سے مسائل سے دوچار معاشروں میں کئی قسم کے عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔ان میں دو نمایاں ترین ہیں۔اوّل ،مسائل کی شدت ، حدت اور گہرائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور دوم ،دھڑے بندی کی نفسیات پروان چڑھتی ہیں جن کے نتیجے میںاس طرح کے مطالبات سامنے آتے ہیں کہ تم میرے ساتھ ہو یا پھر نہیں ہو۔درمیان کی راہیں مسدود ہوتے ہوتے خاتمے کے قریب جا پہنچتی ہیں۔
پھرایسے معاشروں میں وہی کچھ ہوتا ہے جس کے مظاہرگزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں پاکستان اور دنیا کے بعض دیگر معاشروں میں دیکھنے کو ملے۔ایسی کیفیات میں معاشروں کا نکتۂ برداشت کم ہوتے ہوتے محدود ہوجاتا ہے اور جب کبھی کوئی جھٹکا لگتا ہے یا خلافِ عادت واقعہ رونما ہوتا ہے تو برداشت کا پیمانہ چھلک پڑتا ہے۔ہمارا معاشرہ یومِ خواتین کے حالیہ مظاہرے کے ردعمل میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
ہمارا معاشرہ قدیم سے ہی مشرقی یعنی روایت پسنداور دینی اقدار کا پابند رہا ہے۔اس معاشرے نے انیسویں صدی کے بعد شروع ہونے والی نئی نظریاتی تحریکوں کے اثرات بھی قبول کیے لیکن مجموعی طور پر ہمارے لوگوں کے مزاج میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اس کی مثال علامہ محمد اقبالؒ بھی ہیں ، سید ابولاعلیٰ مودودی بھی اورؒ ان کے بعد کے آنے والے دیگر بزرگ بھی۔ان سب نے یورپ کی نشاۃ الثانیہ اور اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والے اشتراکی نظریات کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اس کے نتیجے میں ردو قبول کے جس عمل سے گزرے، اس کی عمارت دلائل و براہین پر استوار ہوئی۔اسی معاشرے میں جو لوگ اشتراکی فکر سے متاثر ہوئے ،اِن کے ہاں بھی ایک سے بڑھ کر ایک بزرگ موجود ہیں۔انھوں نے نئے ابھرتے ہوئے نظریات کا پرجوش خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی زندگی کا نصب العین بنایا لیکن اسکے باوجود ان کی معاشرتی وضع داری میں بال برابر بھی فرق و اقع نہ ہوا۔
آنے والے زمانوں میں سرد جنگ میں جیسے جیسے شدت پیدا ہوئی، نظریاتی آویزش میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوا۔سوویت یونین کے بکھرنے اور چند برس پہلے نائن الیون کے واقعے کے بعد ایک نئی دنیا نے جنم لیا۔یہ نئی دنیا اُس پرانی دنیا سے بہت مختلف ہے جس کے ہم عادی رہے ہیں۔
اِس عہد میں آنکھیں کھولنے والی نسل کے اندازِ فکر کو سرخ سویرے کی آرزو میں زندگی قربان کردینے والے دادا امیر حیدر اور ان کے بعد کی نسل کے لوگ سمجھ سکتے ہیں اور نہ لٹریچر سے معمولی شغف اور بیشتر ردِ عمل کی نفسیات کے ساتھ ایشیا کو سبز بنانے کے خواہش مند مخلصین۔ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اطلاعات کی فراوانی کے اس دور میں جس کے سبب اس عہد میں آنکھیں کھولنے والے بچے پرانے طور طریقوں سے متاثر ہونے پر آمادہ نہیں،بدلے ہوئے ذہن کی ایسی کیفیات سمجھنے کے لیے اس عہد کے نوعمر(Teenagers)بہترین مثال ہیں جن کے ساتھ معاملہ کرنا ماضی کے مقابلے میں کہیں مشکل ہے۔یہ بچے کسی اور کے ذہن سے سوچنے اور کسی اور کی آنکھوں سے دیکھنے کے بجائے اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا پسند کرتے ہیں،لہٰذا ہماری نسل کے لوگوں کو یہ نئی حقیقت قبول کرکے اس عہد کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنی بات کہنی چاہئے۔
یومِ خواتین کے مظاہرے کو بھی اسی اصول کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔اُس مظاہرے میںجو زبان اور جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا، اُس کے بارے میں دو آرا ہرگزنہیں ہیں کہ اِس طرح کی گفتگو اور وہ بھی خواتین کی زبان سے ،ہماری روایت میں اجنبی ہے لیکن یہ بھی تو امرِ واقعہ ہے کہ یومِ خواتین میں حصہ لینے والی تمام خواتین اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم سب کے ساتھ اِن کے رشتے ناتے ہیں۔ اس لیے انھیں نہ اپنے معاشرتی جسم سے کاٹ کر کہیں پھینکا جاسکتا ہے اور نہ انھیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔اس لیے بہتر رویہ یہی ہے کہ ان کی بات سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ان سطور کے لکھنے والے نے اپنی گزشتہ تحریر میں یہی جسارت کی تھی جس پر گرفت فرمائی گئی۔کیا ہمارے دوست اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ معاشرے میں خواتین کے ساتھ دین اور قبائلی روایت کے نام پر امتیازی سلوک روا رکھا گیا؟ کوئی سلیم الفطرت اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پرانی نسل کے لوگوں کے لیے 8؍مارچ کی زبان و بیان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلینا بھی ممکن نہیں، لہٰذا کوئی شامت کا مارا جب اس طرح کی صورت حال میں درمیان کا راستہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اپنے بزرگوں کی ناراضی نیز کچھ الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے برادرم اسلم خان صاحب کا خیال ہے کہ خواتین کے مطالبات کو سمجھنے کا مطالبہ صدر ممنون حسین جیسے مرنجاں مرنج اور نظریاتی اعتبار سے پختہ کار شخصیت کی معیت میں رہنے والا کوئی شخص تو نہیں کرسکتا ۔
میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں مناسب روّیہ یہ ہوگا کہ خواتین کے احتجاج کو دشمن کا ایجنڈا اور اخلاق باختہ عورتوں کی خواہش کا عنوان دے کر نظر انداز کرنے کے بجائے ان کی ناراضی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور دین کی تعلیمات نیزپاکستان کے آئین کے تحت انھیں جن حقوق کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، ان پر عمل درآمد کو یقینی بناکر اِن کے دکھوں کا ازالہ کیاجائے۔اگر ایسا نہ کیا گیا توہم دینی تعلیمات اور آئین سے انحراف کے مجرم تو ٹھہریں گے ہی، اپنی اولادوں کی نظر میں بھی اجنبی بن جائیں گے۔اگر یہی روش برقرار رہی تو اس کے نتیجے میں اُس غیر ملکی ایجنڈے کو یہاں گل کھلانے کے زیادہ مواقع میسر آجائیں گے جس کے کچھ مظاہر 8؍ مارچ کے مظاہروں میں دکھائی دیے ہیں۔ حرف ِآخر یہ کہ ہماری مذہبی کلاس ہویا کوئی اور، معاشرے کی اصلاح کے لیے اس کی حکمت عملی اب تک ناکام ہی رہی ہے کیوں کہ اس کا زور بالعموم حکمت کے بجائے ردعمل پر رہا ہے۔لہٰذا اب یہ بزرگ بعد میں آنے والوں کے عقیدے اور کمٹ منٹ پر شکوک وشبہات کا شکار کرنے اور انھیں ’’دشمن ‘ ‘ کا آدمی قرار دینے کے بجائے اِن کی بات پر بھی توجہ دے کر دیکھیں، کیا خبر بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوہی جائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024