پچھلے کالم کے اختتامی جملوں میں پاکستان کے بارے میں ایک بہت چْبھتا سوال سامنے آیا تھا کہ خطے کی مجموعی صورتحال کا عمومی جائزہ لیتے ہوئے مودی سرکار اور بے جے پی کی دوسری حکومتوں کے مذہبی شدت پسندی رجحانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب ہندوستان کی عوام کی ذہنی سوچ پر مخصوص حاشیہ آرائی ہو سکتی ہے کہ وہ انتہاپسندی کو ہوا دے رہے ہیں تو پھر اسی سباق میں پاکستان میں ضیاالحق کی حکومت کے اقدامات اور فلسفہ کی بنیاد کے حوالے سے پاکستانی قوم کو اس مخصوص سوچ اور ذہنیت سے کس طرح بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے اس بارے میں راقم نے لکھا تھا کہ تاریخ کسی بْغض اور رعایا کاری کے بغیر خود ہی اسکا جواب دیتی ہے کہ اوّل ضیاالحق کی حکومت پاکستانی عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں تھی لہذا اس تناظر اور سباق میں کسی طور اس حوالے سے پاکستانی عوام کی ذہنی سوچ پر سوالیہ نشان اْٹھایا نہیں جا سکتا البتہ کچھ زمینی حقائق اس سباق میں اتنی گنجائش ضرور پیدا کرتے ہیں اور نقادوں کو اتنا موقع ضرور فراہم کرتے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ ضیاالحق کی حکومت کے روئیے کی بدولت پاکستان میں ایک ایسے سکول آف تھاٹ کا وجود ضرور عمل میں آیا جنکے خیال میں ریاستی معاملات چلانے میں مذہبی فلاسفی کو فوقیت حاصل ہونی چاہیئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ضیاء دور میں ریاستی پالیسیوں کی مرکزیت ریاست کے خود تشکیل کردہ آئین سے زیادہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے تجویز کردہ فلسفہ جہاد کے زیادہ نزدیک تھی وہیں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بیشک نقاد 1985ء میں منتخب ہونے والی جونیجو حکومت کو ضیائ کی منتخب حکومت کا نام دیتے ہیں لیکن جونیجو کی سربراہی میں قائم ہونے والی اسی لولی لنگڑی سیاسی حکومت نے جنیوا مذاکرات میں ضیاء کے موقف کے برعکس اپنی عملی کارکردگی کے ذریعے ثابت کیا کہ بیشک سنگینوں کے سائے میں ہی کوئی سیاسی حکومت کیوں نہ بنے لیکن جب عمل کا وقت اتا ہے تو اپنے خمیر میں موجود بنیادی جمہوری فلسفے کے تحت وہ اپنے عوام کے جذبات کی ہی ترجمانی کرتی ہے اور جنیوا معاہدے میں زین نورانی پر مشمول جونیجو حکومت کے وفد نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ایک آمر، ڈکٹیٹر اور فرد واحد کے زیر سایہ قائم حکومت اور ایک عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کی سوچ اور عمل میں کیا فرق ہوتا ہے لہذا ان شہادتوں کی موجودگی میں مورخ ڈٹ کر کہہ سکتا ہے کہ اس مختصر عرصہ کی کاروائیوں کو پاکستانی عوام کی سوچ کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ بات کو سمیٹتے ہوئے تاریخ میں ہمیں یہ شواہد ملتے ہیں کہ بیشک ضیاء دور کے اس سکول آف تھاٹ کی سرگرمیاں اپنے لیول پر جاری رہیں جسکے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف لابیاں مسلسل اس کوشش میں لگی رہیں کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اس سکولْ اف تھاٹ کا کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے تعلق جوڑی رکھیں لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ جونیجو حکومت سے لیکر آج تک کسی بھی حکومت نے چاہے وہ سیاسی تھی یا فوجی باضابطہ طور پر ایسی سوچ کی سرپرستی کی ہو۔ یہاں نقاد بینظیر دور میں طالبان کے وجود کے اجراء اور پھر اسکی حمایت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ تاریخی حقائق اس بارے بھی خود ہی اسکا جواب دیتے ہیں کہ اوّل طالبان کی پیدائش پاکستان نہیں بلکہ امریکہ سمیت کچھ اور ممالک پر مشتمل ایک انٹرنیشنل مافیا کی ضرورت تھی جو افغانستان میں احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم سمیت دوسرے ازبکوں پر مشتمل شمالی اتحاد کی حکومت کو کسی طور پسند نہیں کرتے تھے اور دوئم طالبان نامی تنظیم نے گو کہ کسی ایک خاص مدرسے سے جنم لیا تھا لیکن اسکو کسی طور پاکستان میں کسی سرگرمی کی اجازت نہیں تھی البتہ مورخ اور راقم جیسے غیر جانبدار تجزیہ نگار اج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ یہ وہ تاریخی غلطی تھی جسکا ہم اج بھی خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ یہ وہ غلطی ہے جسکا اعتراف حالیہ دنوں میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے نے بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں کچھ ان الفاظ میں کیا ہے کہ " ہم مانتے ہیں کہ کچھ غلطیاں ہمارے ہاں بھی ہوئی ہیں لیکن ہم نے ان غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور اسکے سْدھار میں لگے ہوئے ہیں"۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی یہ بات صرف بیانیئے تک محدود نہیں۔ دنیا کو خبر ہو بلکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پچھلے دس سالوں سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے "راہ حق" "راہ راست" "راہ نجات" "ضرب عضب" اور "ردالفساد" جیسے کتنے کامیاب آپریشن کیئے ہیں اور اب تو اسٹیبلشمنٹ نے اس سکول آف تھاٹ کی نیم مذہبی تعلیمی اور رفاعی تنظیموں پر بھی ہاتھ ڈال دیا ہے جنھے نان اسٹیٹ ایکٹرز کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک بڑا اہم سوال اْٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کی کسی کاروائی کے شواہد ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی ملتے ہیں جہاں پر ہندواتا اور آر ایس ایس جیسی شدت پسند مذہبی تنظیمیں اج بھی اس وحشیانہ طریقے سے مذہبی منافرت پر مبنی اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جنکا صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ عیسائی حتی کہ انکے اپنے مذہب کے دلت بھی بیدردی سے شکار ہو رہے ہیں۔ واقعاتی شہادتیں اس ضمن میں کچھ اور ہی حقیقتیں اشکار کرتی ہیں جنکا ذکر اگلے کالم میں ہو گا کہ کن حقائق کی روشنی میں یہ بات تقویت پکڑ رہی ہے کہ جمہوری عمل سے وجود میں انے والی بھارت کی حکومت ایک فاشسٹ حکومت ثابت ہو رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024