جاوید صدیق
میرا خیال تھا کہ مشہد ایک عام ایرانی شہر ہوگا جو دارالحکومت تہران کے مقابلے میں پسماندہ ہوگا لیکن ہمیں یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ مشہد شہر انتہائی ترقی یافتہ اور جدید شہری سہولتوں کا شہر ہے جہاں کی سڑکیں اور انفرا سٹرکچر تہران سے کم نہیں ہے۔ مشہد کی اہمیت یہاں کا وہ مزار ہے جہاں سالانہ لاکھوں زائرین عقیدت کا اظہار کنے کیلئے آتے ہیں۔ یہاں امام رضا کا مزار ہے جنہیں اہل تشیع اپنا امام مانتے ہیں۔ یہ مزار ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا انتظام بہت جدید انداز میں کیا جاتا ہے۔ اس مزار پر حاضری دینے والوں کو مزار کی انتظامیہ کی طرف سے کھانا بھی مفت کھلایا جاتا ہے اس کھانے کا معیار ہمارے ہاں کے لنگر کے کھانے سے کہیں اعلیٰ ہے۔ یہ کھانا جدید طرز پر بنائے گئے ایک کیفے ٹیریا میں SERVE کیا جاتا ہے جہاں بیک وقت ہزار سے زیادہ زائرین کھانا کھاسکتے ہیں۔ پاکستانی صحافیوں کو اس مزار کا لنگر کھانے کا موقع ملا۔ مشہد امام رضا کے مزار کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لاکھوں زائرین یہاں ہر ماہ عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں۔ مشہد شہر ایک طرح سے مذہبی سیاحت کا مرکز ہے۔ جس وجہ سے یہاں اعلیٰ درجے کی ہوٹل اور ریستوران اور شاپنگ مال بن گئے ہیں۔
مشہد میں پاکستان کا ایک قونصلیٹ بھی ہے۔ یہ قونصلیٹ کئی سو کنال پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ قونصلیٹ برطانیہ نے ڈیڑھ صدی پہلے یہاں تعمیر کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد تقسیم کے فارمولے کے تحت ہزار کنال سے زیادہ رقبہ پر پھیلی یہ عمارت پاکستان کے حصے میں آئی اور پاکستان نے یہاں اپنا قونصل خانہ قائم کرلیا۔ پاکستانی قونصلیٹ کی عمارت بھی برطانوی عہد کی خصوصیات لئے ہوئے ہے۔ پاکستانی صحافیوں کی پاکستان روانگی سے ایک روز قبل پاکستانی قونصلیٹ میں قونصلر اور قونصلیٹ میں کام کرنے والے دوسرے سفارت کاروں سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ قونصلر محمود بخاری ایک جواں سال پاکستانی سفارت کار ہیں اور ان کے ساتھ نائب قونصلر اشفاق صاحب اور اسد ملک بھی اپنی ذمہ داریاں بڑے جذبے کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کے قونصل خانہ کی پرشکوہ عمارت کی شان و شوکت کو کم کرنے کیلئے اس عمارت کی مین روڈ پر واقع دیوار کے ساتھ ایک کاروباری مرکز کھول دیا گیا ہے۔ جس میں دکانیں بنادی گئی ہیں۔ یہ دکانیں پرچون کا کاروبار کرتی ہیں اور قونصلیٹ کی عمارت کے ساتھ کسی طور لگا نہیں کھاتیں۔ ان دکانوں میں کاروبار کرنے والے دکاندار اپنا کوڑا کرکٹ پاکستانی قونصلیٹ کے احاطہ میں پھینک دیتے ہیں۔ جس پر پاکستانی قونصلر نے مقامی انتظامیہ سے کئی بار احتجاج بھی کیا ہے لیکن مشہد کی شہری انتظامیہ نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ قونصل خانے کی عمارت کی دیوار سے متصل ایک شفاخانہ بھی تعمیر کیا گیا ہے جس کے بارے میں مشہد میں ہمارے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہاں کام کرنے والے ’’ڈاکٹرز‘‘ زیادہ تر قونصلیٹ کے اندر تاک جھانک کرتے رہتے ہیں۔
مشہد میں کام کرنے والے پاکستانی سفارت کاروں نے پانچ فروری کو جب یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں قونصل خانہ میں ایک تقریب منعقد کرنے کی کوشش کی تو اس تقریب کو رکوانے کیلئے بھارتی سفارت کار متحرک ہو گئے۔ بھارت کا ابھی تک مشہد میں کوئی قونصلیٹ نہیں ہے۔ بھارتی سفارت کار پاکستانی قونصلیٹ کی مشہد میں موجودگی پر بہت کڑتے رہتے ہیں۔ ہمارے قونصلیٹ نے نہ صرف پانچ فروری کو یوم کشمیر پر تقریب منعقد کی بلکہ بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے بارے میں ایک ڈاکو منٹری بھی مقامی سینما گھر میں دکھائی۔ یہ ڈاکو منٹری فلم مشہد میں پاکستانی قونصلیٹ کی اپنی پروڈکشن تھی۔ انتہائی پراثر اس ڈاکومنٹری کو دیکھنے کے لئے مشہد کے سینکڑوں شہری جمع ہوئے۔ ڈاکومنٹری میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری نوجوانوں کے جنازوں میں لہراتے پاکستانی پرچم اور بین کرتی ہوئی خواتین کو دیکھ کر ہر دیکھنے والا اشکبار ہو جاتا ہے۔ یہ دستاویزی فلم دکھانے پر بھارت نے بڑا شور شرابا کیا اور ایرانی حکومت سے احتجاج بھی کیا لیکن چونکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خمینائی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خود مذمت کر چکے ہیں اور انہوں نے کشمیریوں کو حق خوداختیاری دینے کی حمایت کی ہے اس لئے بھارت کا واویلا رائیگاں گیا۔ مالی دقتوں کے باوجود مہشد میں پاکستانی قونصلیٹ بڑی محنت سے کام کر رہا ہے۔ مشہد میں تو پاکستانی قونصلیٹ کم سے کم اپنی عمارت اور زمین پر کسی تجاوز کو روکنے میں کامیاب ہے لیکن زاہدان میں 1200 کنال پر بنے پاکستانی قونصل خانے کی زمین کا بڑا حصہ زاہدان کی مقامی انتظامیہ نے دبا لیا ہے۔ پاکستان کے احتجاج کے باوجود پاکستان کے قونصل خانے کی زمین واگزار نہیں کی گئی۔ حال ہی میں پاکستان کو پیشکش کی گئی۔ 1200 کنال میں سے 200 کنال پر اپنا قونصل خانہ تعمیر کر لے۔ ایک ہزار کنال سے دستبردار ہو جائے ۔ زاہدان کے قونصلیٹ کے ارد گرد بنی چار دیواری بھی مسمار کر دی گئی ہے۔ اس معاملے پر پاکستان اور ایران میں بات چیت جاری ہے۔ ایران میں بھارتی سفارت کار بہت فعال ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ پاک ایران تعلقات خراب ہوں اور دونوں ملکوں میں غلط فہمیاں بڑھتی رہیں کیونکہ بھارت کا مفاد اس میں ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود ہمارے سفارت کار صورتحال کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن ان کی خواہش ہے کہ اگر انہیں ’’اوپر‘‘ سے سپورٹ مل جائے تو وہ ایران میں بھارت کے اثر کو کم کر سکتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024