خسارے کے باوجود پاکستان پوسٹ کی نجکاری نہیں کی جائیگی‘ مولانا امیر زمان
اسلام آباد (خبر نگار) وفاقی وزیر پوسٹل سروسز مولانا امیر زمان نے کہا ہے کہ اگرچہ ادارہ کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور خسارہ دو ارب روپے سالانہ تک پہنچ گیاہے اس کے باوجود ادارہ کی نجکاری کا کو ئی منصوبہ زیر غور نہیںہاں البتہ ادارہ کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ادارہ کی تنظیم نو کیلئے اصلاحاتی ایجنڈاپر عمل پیرا ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی کے نکتہ اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ کی کوئی نجکاری نہیں کی جارہی اس لئے ملازمین پریشان نہ ہوں۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے پیر کو وزارت میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوے ٔ کیا۔ انھوں نے کہا کہ آج سے 220 برس پہلے (1898 ) میں پاکستان پوسٹ معرضِ وجود میں آیا۔آج ہمارے پاس 11496 دفاتر اور 47348 ملازمین ہیں۔پاکستان پوسٹ کے بڑھتے خسارے کو کم کرنے کیلئے 2015 ء میں وزیرِ اعظم کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی سمری/ منصوبہ بجھوائی گئی۔ 2016 میں منصوبہ منظور ہوا جس کے مطابق۔100 فیصد ملکیتی حقوق حکومتی تحویل میں رہیں گے۔پرائیویٹ سیکٹر صرف مخصوص/معینہ وقت کیلئے سرمایہ کاری کرے گااور اسی مخصوص وقت میں منافع میں شراکت دار ہو گا۔ اس پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو پرائیویٹائزیشن کہنا کسی اعتبار سے درست نہیں۔ اس قسم کی غلط فہمیوں سے گریز کیا جائے۔اس اصلاحاتی پروگرام میں 3 منصوبے ہیں۔موبائل منی آرڈر پراجیکٹپاکستان پوسٹ کی 7 سروسز کو ترقی دینے کیلئے متوقع سرمایہ کار ان شرطوں پر شراکت کریں گے۔7.5 ارب زرِ ضمانت جمع کرائیں گے (پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد سرمایہ کار کو یہ رقم واپس کر دی جائے گی۔سرمایہ کار 7.5 ارب پر سالانہ 5% فیصد اضافہ کرے گا۔منافع، پاکستان پوسٹ اور سرمایہ کار کے مابین ’’طے شدہ ریٹ‘‘ سے تقسیم ہو گا۔یہ عمل PPRA قوانین (پیپرا رولز) کے تحت مکمل ہو گا۔لا جسٹک کمپنی کا قیام سرمایہ کار 320 ملین روپے زرِ ضمانت کے طور پر جمع کرائے گا۔اس رقم میں سالانہ 5% اضافہ کرے گا۔ سرمایہ کار۔ منافع طے شدہ ریٹ کے مطابق تقسیم ہو گا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے محکمہ ڈاک کی ری برانڈنگ بھی پیپرا قوانین کے تحت ہو رہی ہے۔موبائل منی آرڈر پروگرام:کیلئے ’’دلچسپی کے اظہار کا اشتہار دیا جس پر 26 کمپنیوں نے آمادگی ظاہر کی۔پروگرام کو کامیاب کرنے کیلئے Consultant کی خدمات لی گئیں۔ پروگرام کو کامیاب کرنے کیلئے اطلاعاتی کانفرنسز کرائی گئیں۔ تمام کمپنیوں سے تجاویز لیں۔ حکومت ہمارے ادارہ کو کوئی ڈویلپمنٹ فنڈ (ترقیاتی فنڈ) دینا نہیں چاہتی۔ لہٰذا مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے یہ قابل عمل حل نکالا گیا۔ یہ لوگ چاہتے ہیں ہمارا ادارہ اپنی استعداد نہ بڑھا پائے اور یہ اکیلے اس سیکٹر پر حکمرانی کریں۔ جو باتیں عارف علوی نے اسمبلی کے فلور پر کیں وہی باتیں کانفرنس کے روز ٹی سی ایس کا نمائندہ کر کے گیا تھا۔