آئین کے دائرے میں رہنے کی برکات
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز لاہور میں جسٹس (ر) فضل کریم کی کتاب کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو بدنیتی کرے تو عدلیہ کو آئین کے تحفظ کیلئے آنا پڑتا ہے۔ جب لوگوں کی دادرسی کرتے ہیں تو کہتے ہیں مداخلت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اندریں حالات ہم لوگوں کی دادرسی نہیں کرینگے تو کون کریگا۔ چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ معاشرے میں ساری خرابیاں اس لئے پیدا ہو رہی ہیں کہ عوام کو بنیادی حقوق نہیں ملتے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ خود کو ٹھیک کرنے کی بجائے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوریت ہی بہترین نظام ہے کیونکہ اس میں ملک کا ہر چھوٹا بڑا ادارہ آئین کی رہبری اور رہنمائی میں اپنے اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ کسی ادارے کیلئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ من مانی کرے۔ 1973ء میں آزادی کے 26 سال بعد ہم آئین کی نعمت سے فیض یاب ہوئے، لیکن بدقسمتی سے آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی اسکی خلاف ورزیوں اور ترامیم کا سلسلہ چل نکلا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ من حیث القوم جمہوریت کی روح ہمارے مزاج میں ہی داخل نہیں تھی۔ بھٹو مرحوم نے بھی‘ جنہیں ملک کا پہلا منتخب وزیراعظم اور آئین کا معمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے‘ جتنا عرصہ حکومت میں رہے آمرانہ روش ہی اختیار کئے رکھی‘ یہاں تک کہ ملک کو ضیاء الحق کے مارشل لا کے گڑھے میں دھکیل کر، خود بھی افسوس ناک انجام سے دوچار ہوئے۔ 2013ء میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی منتخب جمہوری حکومت نے آئینی میعاد پوری کی اگرچہ اس نے بھی کوئی مثالی اطمینان و سکون سے 5 سال پورے نہیں کئے۔ 2013ء میں منتخب ہونیوالی مسلم لیگ ن کی حکومت کی گاڑی بھی کچے راستوں پر ہچکولے کھاتی اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کے قریب ہے۔ اسکے بانی مبانی نااہل ہو کر ’’قائد‘‘ کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ ہر صائب رائے محب وطن کا حاصل فکر یہ ہے کہ اداروں کا آئین سے انحراف اس صورتحال کا سبب ہے۔ یہ نشاندہی کرنا کہ کون (ادارہ) آئین کی پابندی نہیں کر رہا خوشگوار فریضہ نہیں۔ اپنی اپنی جگہ سب جانتے ہیں کہ آئینی حدود کی کس حد تک پاسداری کی جا رہی ہے۔ عوام، عدلیہ، انتظامیہ، فوج کس کس کے مسائل نہیں ہیں۔ محترم چیف جسٹس کے خلوص اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے تڑپ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ ان سے اصلاح احوال کیلئے جو بن پڑ رہا ہے‘ کر رہے ہیں لیکن مسائل کے حل کیلئے مدار سے باہر نکل کر اقدامات کرنے سے مدار میں گھومنے والے دوسرے سیاروں سے ٹکرائو قدرتی بات ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اپنے اپنے مدار میں رہنے کا سختی سے اہتمام کیا جائے۔ عوام کو نظام عدل اور عدلیہ سے بھی بے پناہ شکایات ہیں۔ فاضل چیف جسٹس خصوصی توجہ فرما کر ان شکایات کا بھی عوامی انداز میں جائزہ لیں اور انہیں دور کرنے کیلئے عملی قدم اٹھائیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ محترم چیف جسٹس کسی سیاسی جماعت کے نہیں، ملک کے سب سے موقر اور معظم ادارے کے سربراہ ہیں۔