الیکشن 2018ء کی آمد آمد ہے، عوام میں نوازشریف کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو ایک نعرے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ نوازشریف، شہبازشریف اور مریم نواز کے جلسوں میں عوامی جوش و خروش دیکھ کر لگتا ہے کہ الیکشن 2018ء میں نوازشریف کی ہوا کے باعث مسلم لیگ (ن) کی پتنگ مخالفین کی پتنگوں کا بوکاٹا کر دے گی۔ نگران دور حکومت میں نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر، خواجہ سعد رفیق اور چند دیگر اہم لیڈروں کوقید کئے جانے کی باتیں عام ہیں۔ واقعی ایسا ہوگیا تو نوازشریف کی تصویر نوازشریف بن جائے گی اور مسلم لیگ (ن) کا ووٹر مزید پُرجوش ہو جائے گا۔ میاں شہبازشریف نے صوبہ پنجاب میں عوام کی جو خدمت کی ہے اور میاں حمزہ شہباز نے صوبہ پنجاب میں پارٹی کے امور پر جو گرفت رکھی ہے دونوں ہی مسلم لیگ (ن) کی کشتی پار لگوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف منصوبہ سازں نے الیکشن کے بعد آصف علی زرداری کو صدر‘ عمران خان کو وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے ایک گروپ کو قومی اسمبلی کا سپیکر دینے کے مشورے شروع کر رکھے ہیں سینٹ کا چیئرمین وہ پہلے ہی ’’اپنا بندہ‘‘ لا چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں ذرا پیچھے مڑ کر دیکھ لیں کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں کیا ہوتا رہا۔ پانامہ سکینڈل آنے سے ذرا پہلے تک میاں نوازشریف کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ عمران خان
لاک ڈائون ناکام ہوچکاتھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ماضی قریب کے چھوٹے بڑے واقعات اور تلخیاں پس پردہ جا چکی تھیں۔ ایسے میں ڈان لیکس کا قصہ عام ہوا۔ اس نئی لڑائی میں جہاں نوازشریف نے جارحانہ انداز اختیار کیا اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کو واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ وہاں انہوں نے اپنے دست راست اور کابینہ کے اہم ترین وزیر سینیٹر پرویز رشید کو اسٹیبلشمنٹ کی قربان گاہ پر قربان کر دیا۔ انہوں نے جو یہ کمزور دکھائی دی، وہی ان کے زوال کا نقطہ آغاز بنی۔ ساری قوم نے دیکھا کہ منصوبہ سازوں نے نواز مخالف سیاستدانوں کو جوڑ دیا۔’’ شیخ الاسلام‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری نے آصف زرداری اور عمران خان کو ساتھ لیا یوں سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لئے کام کا آغاز ہوا۔ ان کے سرپر ’’دست شفقت‘‘ موجود رہا۔ پہلا فارمولا یہ سامنے آیا کہ سینٹ کے الیکشن سے پہلے موجودہ اسمبلیوں کو چلتا کیا جائے، جہاں قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ مشورہ ہوا کہ خیبر پختوانخواہ اسمبلی اور سندھ اسمبلی کو توڑ دیا جائے تو کام بن جائے گا سو سینٹ کے الیکشن سے پہلے اسمبلیاں ٹوٹنے کا چرچا عام ہوا۔ حکمران پارٹی کی جانب سے بھی آہ و بکا اٹھی لیکن اس وقت اچانک فارمولا ٹو بروئے کار لانے کا فیصلہ سامنے آیا۔ میاں نوازشریف ڈان لیکس میں پرویز رشید کوقربان کر کے کمزور ہو چکے تھے جبکہ بلوچستان میں ان کی نظر کرم مسلم لیگ (ن) کے عہدیداران یا حکومت میں شامل افرادپر نہیں بلکہ محمود خان اچکزئی پرتھی جن کا ایک بھائی گورنر تھا۔ اور میئرکوئٹہ بھی ان کاتھا جبکہ حکمران مسلم لیگ ن کا ڈپٹی میئر بنایا گیا تھا۔ نوازشریف نے بھرے جلسہ عام میں محمود خان اچکزئی کو اپنا نظریاتی ساتھی قرار دے دیا۔ جس پرمسلم لیگ حلقے الامان والحفیظ پکار اٹھے تھے۔ کہاں مسلم لیگ، نوازشریف اور کہاں قوم پرست پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اور محمود خان اچکزئی، اس صورتحال پر بلوچستان میں نوازشریف اور مسلم لیگ کے مخلص ساتھی سیدآل خان ناصر، نوابزادہ چنگیز مری، جسیم کرد گالو، ایزاد خان کھوسہ، طاہر محمود خان ، حاجی محمود خان لہڑی، صالح بھوٹانی دل گرفتہ ہوگئے۔ نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کے اپنے ساتھیوں کو لنیے والے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان کو خود سے بیزار کر بیٹھے یہ وہ صورتحال تھی جس میں منصوبہ سازوں نے فارمولا ٹو آزمانے کا فیصلہ کیا اور اس میں مولانا فضل الرحمٰن کے گرد آصف زرداری کے ذریعے گھیرا ڈالا گیا۔ آصف زرداری کے آج کے دست راست اور ماضی میں گریڈ 18 کے محکمہ صحت سندھ کے افسر ڈاکٹر قیوم سومرو کو چارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ قیوم سومرو زمانہ طالب علمی میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی طلباء تنظیم جمعیت طلباء اسلام کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد آج بھی جمعیت علماء اسلام (ف) سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر قیوم سومرو کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن سے سیاسی سودے بازی کی گئی اور دیگر صوبائی وزراء اور مسلم لیگ نے بلوچستان کے جنرل سیکرٹری نقیب اللہ بادوزئی کو گھیرا گیا۔ نواب ثناء اللہ زہری کے مشیر سیدآل خان ناصر نے تمام صورتحال سے اپنے مرکزی قائدین کو آگاہ کیا لیکن یہاں شان بے نیازی تھی۔ پہلا وار وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر کیا گیا۔ نواب ثناء اللہ زہری، جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور میر حاصل بزنجو نے نوازشریف کو بتایا کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ کریں۔ مولانا فضل الرحمٰن ہمارے مخالفین کا ساتھ نہ دیں تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی۔
نواز شریف نے ان تینوں رہنمائوں کی فرمائش پر مولانا فضل الرحمن سے رابطہ قائم کیا لیکن مولانا صاحب ان کو طرح دے گئے۔ نواز شریف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو کوئٹہ بھجوایا لیکن ان کوکس بری طرح ناکام ہونا پڑا وہ سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری نے شکست سامنے دیکھی تو سرنڈر کرگئے اور منصوبہ سازوں نے مسلم لیگ ق کے عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنوا دیا۔ نوازشریف نے دیکھ لیا تھا کہ بلوچستان میں کیا میں اور کیسے کھیل کھیلا گیا ہے لیکن وہ غالباً اپنے مقدمات میں الجھ کر رہ گئے تھے سینٹ میں مسلم لیگ ن کی بلوچستان سے آنے والی نشستوں کا بندوبست کر کے منصوبے ساز دیگر صوبوں کی طرف متوجہ ہوچکے تھے اور آصف زرداری ان کے فرنٹ مین بن کر بڑھکیں لگا رہے تھے۔ صورت حال کا ادراک کرلیا جاتا تو مسلم لیگ ن بند باندھ سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب سے پی ٹی آئی نے سینٹ کی جنرل نشست پر چوہدری محمد سرور کو میدان میں اتارا جن کے پنجاب اسمبلی میں 30 ممبران تھے۔ ادھر پی پی نے 8 ممبران کے ہوتے ہوئے شہزاد علی خان کو سینٹ کی جنرل نشست پر اپنا امیدوار بنایا تھا۔ ان دونوں نے مسلم لیگ ن کے ممبران صوبائی اسمبلی پر ہاتھ صاف کیا۔ چودری سرور نے 44 ووٹ اور شہزاد علی خان نے 26 ووٹ لے لئے مسلم لیگ ن نے اپنے ممبران کے چھیالیس چھیالیس کے گروپ بنائے تھے۔ زبیر گل گروپ میں جنوبی پنجاب کے 46 ممبر تھے جبکہ ساتویں امیدوار رانا محمود الحسن کے گروپ میں پہلی ترجیح کے 21 ووٹ تھے۔ جب نتیجہ سامنے آیا تو رانا محمودالحسن 40 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے اور زبیر گل 38 ووٹ لینے کی وجہ سے ہار گئے۔ رانا مقبول 43 مصدق ملک 41 ہارون اختر 42 ڈاکٹر آصف کرمانی 42 شاہین خالد بٹ 41 ووٹ لے سکے۔ گویا رانا محمود الحسن نے پکا کام دکھایا اور ان کے 21 کی بجائے 40 ووٹ اس کا ثبوت ہیں جبکہ چوہدری سرور اور شہزاد علی خان کو بھی مسلم لیگ ن کے ممبران صوبائی اسمبلی نے بھی ووٹ ڈالے۔ الیکشن کے دن پنجاب اسمبلی میں ڈاکٹر آصف کرمانی اپنے ممبران صوبائی اسمبلی کے آگے پیچھے دوڑتے نظر آتے رہے۔ ان سمیت صوبائی وزیر منشاء اللہ بٹ اور بعض صحافیوں کو صورت حال کا ادراک ہوچکا تھا اور وہ مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں موجود قائدین کو بتا رہے تھے کہ چوہدری سرور، شہزاد علی خان اور رانا محمودالحسن مسلم لیگ ن کے بعض ووٹ لے رہے ہیں۔ خیر اب معاملہ الیکشن کمشن کے پاس ہے، تاہم منصوبہ ساز اپنی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو سینٹ میں چیئرمین کے عہدے کے حصول میں ناکام بنا چکے ہیں۔ جمعیت علما اسلام ف کے 3 سنیٹروں اور ایم کیو ایم کے 5 سینٹروں نے مسلم لیگ ن سے وعدہ وفا نہ کیا چند ایک دیگر بھی بے وفائی کرنے والوں میں شامل تھے۔
اب ہم آتے ہیں الیکشن 2018ء کی طرف جس میں بظاہر مسلم لیگ ن اکثریت سے جیتتی نظر آرہی ہے لیکن نواز شریف کو سیاست سے مائنس کرنے کے خواہاں اپنے منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں اس کے لئے مسلم لیگ ن کو تقسیم کرنا ان کا خواب ہے۔ ماضی قریب میں یہ کوشش ناکام رہی ہے اب توقع لگائی جارہی ہے کہ نواز شریف کو عدالت سے سزا ہونے کے بعد مسلم لیگ ن احتجاج پر جائے گی اس وقت ان پر کریک ڈائون کیا جائے گا اور طاقت کے زور پر مسلم لیگ ن کو کرش کردیا جائے گا تاکہ الیکشن میں وہ اکثریتی جماعت نہ بن سکے بلکہ یہاں تک خواب دیکھے جارہے ہیں کہ مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بنوا کر اس کو آنے والی مخلوط حکومت میں شامل کروایا جائے گا۔ سو اب منصوبہ سازوں اور عوام کا مقابلہ ہونا ہے۔ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے سازشوں کو ملیا میٹ کرنے کی قدرت رکھتے ہیںبس چند ماہ کی بات ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024