ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کی دو تقاریب
گذشتہ دنوں ایم کیو ایم نے اپنا ۳۴ واں یوم تاسیس منایا یہ یوم تاسیس دو مختلف حصوں میں منا یا گیا یعنی ایم کیو ایم بہادر آباد کا یو م تاسیس اور ایم کیو ایم پی آئی بی کا یو م تاسیس ۔ایم کیو ایم کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کا یوم تاسیس دو حصوں میں منایا گیا جو اس بات کی وا ضح دلیل ہے کہ ایم کیو ایم کا شیرا زہ بکھر گیا ہے ایم کیو ایم کا وجود خطرات کی زد میں ہے پاکستان کی سیاست میں ایم کیو ایم ہی وہ واحد جماعت ہے جس کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن کیے گئے قیادت وطن سے باہر بیٹھ کر کی گئی مگر اس جماعت کا ووٹر تقسیم نہ ہوسکا سخت مسائل کے با وجود ایم کیو ایم ملک کے معزز ایوانوں میں اکثریت کے ساتھ موجود رہی اور ملکی سیاست میں اپنی اہمیت کو اُجاگر کیا پچھلے بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے ایم کیو ایم نے یہ ثابت کیا کہ اگر ان کو مکمل اختیارات حاصل ہوں تو وہ اپنے شہر کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں یہ ہماری سیاست کا درد ناک المیہ رہا ہے کہ ہمارے لیڈر ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اُچھالتے ہیں اور دوسرے ہی لمحہ ذاتی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی گودمیں بیٹھ جاتے ہیں سیاستدانوں کے اس رویہ نے پاکستان کی سیاست کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ آج کراچی کی سب سے بڑی جماعت زوال کا شکار ہے آج کراچی شہر پر چالیس سال سے اپنا منظم مینڈیٹ رکھنے والی ایم کیو ایم ایک ڈوبتی کشتی کی مانند ہے اس کشتی کو لے کر چلنے والے رہنماء اقتدار کی جنگ میں مبتلا ہوکر اپنے ہزاروں کارکنوں اپنے لاکھوں ووٹروں کو مایوسی کی جانب دھکیل رہے ہیں اس جماعت کے موجود ہ دھڑوں کے رویے اور سینیٹ کی شکست نے اس جماعت سے منسلک لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ایک کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کو بکھرنے پر مجبور کر دیا ہے ہر ایک اپنی انا کو قائم رکھنے کے لئے چالیس سال کی ایم کیو ایم کو بکھرتا دیکھ سکتا ہے اپنا ووٹ تقسیم کر سکتا ہے مگر اپنے اختلافات کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا یہ شکست چند افراد کی نہیں بلکہ اس جماعت سے منسلک لاکھوں ووٹروں کی شکست ہے جس کو موجود ایم کیو ایم کے دھڑے محسوس کرنے سے قاصر ہیں شاید ان کو ان اختلافات کا خمیازہ اگلے عام انتخابات میں بھی اُٹھانا پڑ سکتا ہے آج ایک شہر میں موجود ہو کر دو دو یوم تاسیس ایم کیو ایم کے لئے لمحہ فکریہ ہے فاروق ستار ہوں یا عامر خان گروپ دونوں ہی کو سوچنا ہوگا ایم کیو ایم کا ووٹر مایوسی کا شکار ہے ۔
ہمارے خیال سے اس مشکل وقت میں ایم کیو ایم کو اس کا منظم ووٹر ہی نکل سکتا ہے یا تو یہ ووٹر بانی ایم کیو ایم سے مطالبہ کرے کہ وہ پاکستان آکراپنے آپکو قانون کے سامنے پیش کر کے اپنے گناہوں کی سزا کا سامنا کریںاور اس جماعت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچائیں جو بظاہر ممکن نہیں البتہ موجود دھڑوں کو اختلافات کے خاتمے پر مجبور کیا جائے یا پھر ایم کیو ایم کا نظریاتی ووٹر ہی ایم کیو ایم پر تالا لگانے کا مطالبہ پیش کر دے جو شاید کسی بھی دھڑے کو قبول نہیں ہوگا ایم کیو ایم پاکستان کی ایک قومی جماعت ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود کراچی شہر میں اپنا اثر رکھتی ہے اس کا قائم رہنا مہاجروں کے مسائل کے حل کی ضمانت ہے اگر آج ایم کیو ایم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑے تو کوئی دورائے نہیں کہ ایم کیو ایم ہی وہ واحد جماعت ہے جو کراچی کے بنیادی مسائل کو سجھتی ہے اور ان مسائل کا حل بھی محفوظ رکھتی ہے اس وقت ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام تر دھڑے آپس کے اختلافات کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھتے ہوئے کراچی شہر کی خوشحالی کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہوئے اختلافات کا خاتمہ کریں اور اپنے منظم ووٹ بینک کو مایوسی کی دلدل سے باہر نکلنے میں اپنا کردار ادا کرے جو ایم کیو ایم کی بقاء کے لئے بہت ضروری ہے اگر مئو ثر اقدامات نہ کیے گئے تو کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کی کشتی ڈوبنے کو ہے ۔