سابقہ حکومت نے 2008ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ11ارب ڈالر کے قرضے کا سٹینڈ بائی معاہدہ کیا، اپ فرنٹ کے طور پر3089 ملین ڈالر زکے قرضے کا بڑا حصہ جاری کیا گیا جسکے بعد4366 ملین ڈالرکے 4 مزید قرضے جاری کئے گئے۔ اس طرح سابق حکومت کو7455ملین ڈالر کا قرضہ جاری ہوا۔ پچھلی حکومت کی طرف سے طے شدہ اقتصادی اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کی وجہ سے سٹینڈ بائی معاہدہ بعد ازاں معطل کردیا گیاجسکی وجہ وہ سابق حکومت پروگرام کے تحت ملک کیلئے 3545ملین ڈالر کا قرضہ نہ حاصل کرسکی۔
موجودہ حکومت نے ستمبر2013ء میں 6ارب 6کروڑ ڈالر کے آئی ایم ایف کیساتھ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا آغازکیا، اب تک اس پروگرام کے تحت موصول ہونے والی رقم 5271ملین ڈالر ہے جبکہ آئی ایم ایف کو اس عرصہ میں 4415ارب ڈالرز واپس بھی کئے گئے ہیں۔ اس طرح ہماری حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے 856ملین ڈالر کی خالص رقم لی گئی ہے جس میں 5.23ارب ڈالرزکا غیرملکی قرضہ میں اضافہ بھی شامل ہے ۔ حکومت نے 10سہ ماہی جائزے کامیابی کیساتھ مکمل کئے ہیں اور ستمبر2016ء تک اصلاحات کا پروگرام مکمل کرنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت اپنے طور پر اقتصادی اصلاحات پرعمل کررہی ہے اور یہ عام انتخابات 2013ء کیلئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے منشور کا بھی حصہ ہے ۔
آئی ایم ایف کے توسیعی پروگرام میں شمولیت کی دو وجوہات ہیںجو کہ کسی دوسری ایسی سہولت کی نسبت زیادہ مشکل ہے ، پہلے یہ کہ سٹینڈ بائی سہولت کے تحت سابق حکومت کی طرف سے لئے جانیوالے قرضے کی ایک بڑی رقم کی ادائیگی کی ضرورت اوردوسرے سابق حکومت کے دور میں اصلاحات کے پروگرام پر عملدرآمد جاری رہنے کی وجہ سے دوسرے کثیر جہتی ترقیاتی شراکت داروں کیساتھ رکا ہوا کاروباردوبارہ بھرپور اندازمیں شروع کرنا ہے، موجودہ حکومت نے دسمبر2015ء تک 10ارب ڈالر سے زائد کا غیرملکی قرضہ واپس کیا جس میں اکثریتی قرضے کا تعلق سابقہ حکومتوں کے ادوار سے تھا اس بھاری ادائیگی کے باوجود ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر20ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں جن میں سے سٹیٹ بینک کے پاس دسمبر2015ء کے اختتام تک 15ارب80کروڑ ڈالر موجود تھے جو کہ چار ماہ کی درآمدی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہیں جبکہ فروری 2014ء میں سٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر دو ارب 80کروڑ ڈالر تھے۔
اڑھائی سال کے دوران غیرملکی حکومتی قرضہ 5ارب 23کروڑ ڈالرتک بڑھا ہے جبکہ اسی عرصہ میں سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں 9ارب 80کروڑ ڈالرکا اضافہ ہوا، پہلے دو مالی سالوں میں قرضے کے بڑے پائیدار اشاریے بہتر ہوئے ہیں جس کو عالمی سٹیک ہولڈرز نے بھی تسلیم کیا ہے۔
٭ری فنانسنگ رسک آف ڈومیسٹک ڈیبٹ پورٹ فولیو، جون2015ء کے اختتام تک میچورٹی پروفائل میں کمی ہوئی ہے اور ایک سال میں اس میں 47فیصد کی شرح سے کمی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ جون 2013ء کے اختتام تک 64فیصد تھی ۔ اسکے علاوہ انٹریسٹ ریٹ رسک میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور ایک سال میں ڈیٹ ری فنانسنگ کی شرح جون 2015ء کے اختتام پر40فیصد تک کم ہوگئی جوکہ جون 2013ء کے اختتام پر12 فیصد تھی۔ شرح منافع میں بھی کمی کی گئی کیونکہ ایک سال میں قرضہ کی دوبارہ فکسنگ میں 2015ء میں جون کے اختتام پر جون 2013ء کے 52% کے مقابلے میں کم ہوکر40% ہو گئی۔
٭شیئر آف ایکسٹرنل لونز میچورنگ ود ان ون ایئر۔یہ بھی جون2015ء کے اختتام پر زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کے تقریباً28فیصد کے برابر ہے جو کہ جون2013ء کے اختتام پر تقریباً69 فیصد تھاجو کہ غیرملکی زرمبادلہ کے استحکام اورادائیگی کی صلاحیت کی بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تاثر اندربرآں کہ زرمبادلہ کے ذخائرکا بڑا حصہ بھاری غیرملکی قرضے بالخصوص یورو بانڈ کی وجہ سے ہے بالکل غلط ہے ، حکومت کی طرف سے جاری کئے جانیوالے یوروبانڈ کی شرح 7.25سے 8.25 فیصد ہے ، پاکستان اپریل2014ء میں 7 سال کے وقفے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہوا جس کا مقصد جون 2014ء میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی سے بچنے کیلئے بہتر میکرو اقتصادی اشاریوں کی بنیاد پر اضافی فنڈز کا حصول تھا، اس سے کیپیٹل مارکیٹ میں کامیاب ٹرانزیکشن سے غیرملکی فنڈز اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کے حصول کے نئے راستے کھلتے ہیں۔
مزید برآں ، غیر ملکی قرضوں کا بڑا حصہ انتہائی کم شرحوں اور پرکشش شرائط پرحاصل کیاگیا ہے۔ یہ دسمبر 2015ء تک موجودہ حکومت کی طرف سے حاصل کر دہ مجموعی بیرونی قرضوں کی اوسط لاگت سے عیاں ہے جو تقریباً3فیصدبنتا ہے ۔ موجودہ حکومت کی طرف سے متحرک کی گئی گرانٹس شامل کرنے کے بعد قرضہ کی اوسط لاگت مذید 3.3فیصد تک کم ہوجاتی ہے جو ایکسچینج ریٹ فرسودگی کی بناء پر کیپٹل خسار ہ کے فرق کے بعد بھی تقریباً10فیصد کی ملکی فنانسنگ لاگت سے نمایاں طور پر کم ہے ۔ اسطرح موجودہ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ بیرونی قرضہ کی لاگت نہ صرف اقتصادی طور پر کم ہے بلکہ طویل مدتی فنڈنگ بھی غالب ہے یہ امر واقعہ ہے کہ اس حکومت نے قرضہ جمع ہونے کی رفتار کو سُست کیا ہے، جی ڈی پی کی شرح کے لحاظ سے قرضوں کے کم ہونے کا رجحان اس کا واضح ثبوت ہے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض حلقے بیرونی سرکاری قرضہ کے غلط اعدادوشمار کا حوالہ دے رہے ہیں ۔ بیرونی سرکاری قرضہ اور مجموعی بیر ونی قرضہ اور ملک کی ذمہ داریوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بیرونی سرکاری قرضہ دسمبر 2015ء کے اختتام پر 53.4ارب ڈالررہا جبکہ اسکے ساتھ ساتھ بیرونی قرضہ اور ملکی ذمہ داریاں 68.5ارب ڈالر تھیں مجموعی بیرونی قرضہ اور ذمہ داریوں میں دیگر شعبوں کا بھی قرضہ شامل ہے جو تعریف کے لحاظ سے سرکاری بیرونی قرضہ شمار نہیں ہوتے کیونکہ حکومت ان کی ادائیگی کی ذمہ دار نہیں ہوتی اس میں نجی شعبے اور بینکوں وغیرہ کا قرضہ بھی شامل ہوتا ہے ۔عام طور پر ایک غلط تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ’’سی پیک‘‘ کے نتیجے میں 2018ء تک سرکاری بیرونی قرضہ 90ارب ڈالر تک بڑھ جائیگا۔ یہ نہ تو حقائق پر مبنی ہے اور نہ ہی قرضہ حرکیات کا مناسب ادارک ہے ۔ اولاً، 90ارب ڈالر کا شمار کرتے ہوئے 66ارب ڈالر کے غلط بنیادی ہندسہ کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ دوئم ،46ارب ڈالر کے مجموعی سی پیک پیکیج میں سے 35ارب ڈالر کا بڑا حصہ نجی شعبے سے متعلق ہے جس میں سے زیادہ تر آئی پی پی طرز پر بجلی کی پیداوار کیلئے ہے اور اس سے سرکاری بیرونی قرضے میں اضافہ نہیں ہوگا۔جو اس قسم کے بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں در حقیقت انہیں اس امر کا ادراک نہیں کہ قرضہ کو شمار کرتے ہوئے اُسی عرصہ کے دوران واپسی کیلئے واجب الادا قرضہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ جب نیا قرضہ حاصل کیا جاتا ہے تو گزشتہ جمع شدہ ذمہ داریاں بھی بیک وقت ادا کی جا رہی ہوتی ہیں۔ایک اور بے بنیاد اور گمراہ کن خبر ’’بلوم برگ‘‘ کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی ہے، جو بصورت دیگر بہت معتبر خبر رساں ادارہ ہے ۔ وہ خبر یہ تھی کہ پاکستان کے تقریباً 50ارب ڈالر کے بیرونی قرضہ کی ادائیگی کی مدت 2016 ء کو پوری ہو رہی ہے ۔ یہ حقیقت سے عاری مضحکہ خیز قیاس آرائی ہے ۔ ہمارا مجموعی بیرونی قرضہ اس رقم کے قریب ہے اور آئندہ 40برسوں میں قابل واپسی ہے ۔ وزارت خزانہ نے دو تفصیلی جواب دیئے جن میں بلوم برگ کو مناسب طور پر مخاطب کیا گیا ۔
ایسے وقت میں جب ہم قرضہ کے انتظام میں نمایاں بہتری لیکر آئے ہیں یہ امر افسوس ناک ہے کہ بعض حلقے عام ذہنوں میں شک اور ابہام کے بیج بو رہے ہیں ۔ پاکستان نے دوبارہ بیرونی نیک نامی اور مالیاتی ساکھ حاصل کی ہے اسکو بلا شبہ بین الاقوامی ترقیاتی پارٹنرز اور اکانومسٹ ، وال سٹریٹ جرنل ، فاربز جیسے کئی ممتاز عالمی جرائد نے تسلیم کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے واضح آثار ظاہر ہو رہے ہیں ۔جون 2014ء کے متوقع ڈیفالٹ سے کامیابی سے بچتے ہوئے اور اقتصادی استحکام حاصل کرتے ہوئے ہماری حکومت اب معیشت کو 2018ء تک 7فیصد کے ہدف کے ساتھ بلند شرح نمو پر گامزن کرنے کیلئے کوشاں ہے جس سے غربت میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور ہمارے نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت اب تک حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد کو تقویت دینے اور انہیں عام آدمی کیلئے وسیع تر اقتصادی مواقع میں یقینی طور پر ڈھالنے کیلئے پر عزم ہے ۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38