نوٹ: نوائے وقت کے کالم نگار اور
حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رفیق عالم کی برسی کے موقع پر
زندگی کی ابتدا ہی خواہش کے حصول سے ہوئی، جب آدم نے خواہش کی تکمیل کیلئے عمل کیا تو اس کے نتیجے میں ترویج شروع ہو گئی اور بڑھتے بڑھتے لوگ، معاشرہ اور دنیا بن گئی اور خواہش کا عمل بھی برقرار رہا۔
انسان نے اپنے وجود کی خواہشات سے مشروط کر لیا اور ان کو مکمل کرنے کےلئے دنیا جس تیز رفتاری سے ترقی کر گئی، اس کی پیش گوئیاں، زمین کے وجود کے ساتھ ہی کر دی گئی تھیں، حیران کن بات ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کو تولیدگی کا عمل یکساں ہے لیکن رنگ، نسل، زبان اور پرورش میں یکسانیت نہیں اور یہی ہماری پہچان بن گئی ہے۔ ہم نے خود کو نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کر لیا جبکہ پیدا کرنے والے نے ہمیں ایک ہی مضمر اصول کے تحت پیدا کیا، ہم کو عقل دی، جستجو دی اور تحقیق کے جراثیم بھی۔ انسان اپنی جہت سے عمل کرتا گیا اور فتح حاصل ہوتی رہی، ہر چیز پر قابض ہونے کےلئے انسان نے جہاں اپنی خواہشات کو قابو رکھا وہاں کسی بھی نقصان سے دریغ نہ کیا۔ انسان کا ہر عمل اس کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور اس کی آئندہ حکمت عملی کی نوید بھی دیتا ہے۔ ازل سے لے کر اب تک انسانوں کا ایک گروہ ایسا چلتا آ رہا ہے جنہوں نے اپنے وجود کا احساس پیدا کرنے کےلئے خود کو وقف رکھا، اور ہر لمحہ اپنے بنیادی فرض کی تکمیل پر صرف کیا، لمحے گزرتے گئے اور وقت بنتا گیا، اور وقت کے عشرے زندگی کی تقسیم کرتے رہے۔ اگر لمحوںکو حسین بنا لیا جائے تو وہ یاد گار ہو جاتے ہیں اور پھر صدیاں تاریخ بن جاتی ہیں، وقت کے استعمال سے آئندہ نسلوں کو خبردار کرنا بھی تاریخ کا ذمہ ہے جس کےلئے جذبہ ایمانی اور سنیت اور فہم میں یکسانیت لازمی جز ہے۔
سنیت.... کی اساس نظریہ ہے، وہی نظریہ جس نے برصغیر کی مردہ مسلم قوم میں نئی روح پھونک دی اور حضرت قائداعظم کی مخلصانہ جدوجہد نے تعبیر کو تعمیر بنا ڈالا، وہی مخلصانہ سوچ اور نظریاتی سوچ آج بھی محترم مجید نظامی اپنے نظریاتی سپاہیوں کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ لاکھوں قربانیوں سے حاصل ہونے والے وطن عزیز کی مٹی آج بھی آزادی کے شہدا کے خون سے گیلی ہے، اس مٹی کو اپنا خون جگر دے کر اب تک نظریہ¿ پاکستان کے محافظ خشک نہیں ہونے دے رہے؟ وقت کی رفتار بھی انہیں سست یا مایوس نہ کر سکی، سرحدوں کے یہ پاسبان اپنے اپنے حصے کے کام کرتے جا رہے ہیں جو آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ اور بہترین مستقبل کی ضمانت ہے، محترم مجید نظامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے بے شمار ”نگینے“ نظریاتی سرحدوں پر جڑ دیئے۔ ان میں سے ایک پروفیسر محمد رفیق عالم مرحوم تھے جو ایک باعمل مسلم لیگی، سچے اور کھرے انسان تھے، ان کے خمیر میں ایک صاف ستھرے صحافی کے جراثیم تھے۔ اپنی نظریاتی جدوجہد کا آغاز، انہوں نے محترم مجید نظامی کی سرپرستی میں کیا اور تادم مرگ وفاداری کو جزو ایمان بنائے رکھا۔ ان کی تصانیف کو نہ صرف قومی سطح پر پذیرائی ملی، بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی تحقیق کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے، وہ بچھڑنے والوں میں نہیں، اپنے علم سے آج بھی زندہ ہیں۔ حلقہ یاراں کے لئے رفیق عالم، رفاقتوں کے رفیق رہے اور آج بھی ان کی یادوں کا سلسلہ خوشبو کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ ان کی علمی تحقیق کا خزینہ آج بھی ان کے کتابی کمرے میں سچل اور عبیر کا اثاثہ ہے۔ میرے لئے یہ باعث فخر ہے کہ ان کے رفقاءنے اپنی شفقت سے مجھے یتیمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ مگر آج بھی میں اپنی ماں کی آغوش میں لیٹ کر آسمان پر چمکتے ہوئے اس ستارے کو دیکھتا ہوں جو مجھ سے بہت دور ہے مگر اس کی روشنی مجھ تک آج بھی ہے۔
انسان کو اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے، حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ نظریہ کو موت نہیں، یہ فرد اور قوم کی شناخت ہے، والد گرامی اس دنیا میں نہیں، جدائی کے یہ مہینے گھڑیوں میں گزر گئے!! مگر منوں مٹی تلے سوئے، ایسے نظریاتی انسان کی سچائی اور دیانتداری کی خوشبو نے اس مٹی کو گیلا رکھا ہے وہ کبھی خشک نہیں ہو سکتی کہ گیلی مٹی کی خوشبو ہی ، حرارت میں ٹھنڈک ہے!!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024