پیر ،20 ذیقعد 1443ھ،20جون 2022 ء
عالمی فادر ڈے دنیا بھر میں منایا گیا
کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ مغرب میں خاندانی اکائی آہستہ آہستہ نہیں بڑی تیزی سے ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ وہاں والدین ذاتی زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں اور نوجوان اپنی زندگی۔ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ اور اولاد کے درمیان ایک فاصلہ رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں اولڈ ہوم اور چائلڈ ہاؤس کا کاروبار خوب چلتا ہے۔ اب اس نفسا نفسی میں وہاں کے اہل دل پریشان ہیں چنانچہ انہوں نے ان رشتوں کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ایام مخصوص کر لئے ہیں۔ کبھی مدر ڈے اور کبھی فادر ڈے۔ ان ایام میں خاندان ایک مرتبہ پھر سالانہ کرسمس کے تہوار کی طرح ایک دن یکجا ہوتا ہے۔ گزشتہ روز دنیا بھر میں ’’باپ‘‘ کا عالمی دن منایا گیا۔ اسے کوئی بلوچستان کا حکمران اتحاد ’’ باپ‘‘ نہ سمجھ لے۔ اس دن دنیا بھر میں لوگ اپنے والد کرتے ہیں۔ ان سے اظہار محبت کے لئے تحفے تحائف لاتے ہیں۔ دن کا کچھ وقت اپنے والد کے ساتھ گپ شپ لگانے کھانے پینے میں بسر کرتے ہیں۔ یوں ایک باپ خوش ہو جاتا ہے کہ ایک دن کے لئے ہی سہی اسکی اولاد کو اسکا خیال تو آیا۔ اس کے برعکس ہمارے مذہب اسلام میں والدین کے جو حقوق ہیں وہ پوری دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اسلام میں تو والدین کے سامنے اف تک کرنے کی اجازت نہیں ان کے سامنے مودب رہنے کا حکم ہے۔
باپ کی رضا کو خدا کی رضا کہہ کر اسکی عظمت کو بیان کیا گیا حقیقت بھی یہی ہے۔
یہ جاں جو کڑی دھوپ میں جلتی رہی برسوں
اوروں کے لئے سایہ دیوار بنی تھی
باپ وہ انسان ہے جو اپنے گھر کے لئے اپنے بیوی بچوں کے لئے دنیا بھرکی سختیاں جھیلتا ہے اور انہیں خوشیاں اور آرام دیتا ہے۔ اپنی خوشیاں اور خواہشات قربان کرکے ان پر اپنا تن من دھن نچھاورکرتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان کی خدمت کرکے دنیا اور اور آخرت میں کامیاب رہتے ہیں۔ والد ایک سائبان ہوتا ہے۔ جس کے تلے سب گھر محفوظ رہتا ہے تو کیوں نہ ہم سب اپنے سائبان کی حفاظت کریں جس طرح وہ ہماری حفاظت کرتا آیا ہے۔۔۔۔
٭٭٭………٭٭٭
کاغذ مہنگا ہونے سے درسی کتابوں کی قیمت میں 110 فیصد اضافہ
یہ کام ہماری وہ حکومت کر رہی ہے جو پڑھا لکھا پاکستان کا خواب ناصرف خود دیکھ بھی رہی ہے اور سب کو دکھا بھی رہی ہے۔ باقی چیزوں پر اثر ہو نہ ہو کاغذ مہنگا ہونے کا سب سے زیادہ اثر کتابوں کاپیاں پر پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یکساں سرکاری نصاب جیسے اعلانات کو نجی تعلیمی ادارے والے کسی کھاتے میں نہیں لاتے۔ انہوں نے اپنے من پسند پبلشروں سے معاہدے کئے ہوتے ہیں جو ان مونو گرام والی کاپٹاں اورکتابیں نہایت مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح بھاری فیس کے علاوہ کتابوں کاپیوں سے یہ پرائیویٹ سکول مالکان لاکھوں روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ لوٹ مارکا یہ کاروبار عروج پر ہے۔ غریب والدین رو رہے ہیں کہ تعلیم مہنگی ہوگئی ہے۔ اب کاغذ کی قیمتوں میں اضافہ سے کتابوں اور کاپیوں کی قیمت میں 110 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکا بوجھ والدین پر پڑے گا بہت سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یوں پڑھا لکھا پاکستان کا خواب ادھورا رہے گا۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ حکومت تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں صرف گورنمنٹ کی شائع شدہ کتب لازمی قرار دے اور درجہ وار ہر کلاس میں فضول درجنوں کتابوں اور کاپیوں کے بوجھ سے طالب علموں کو نجات دلائے اور کم سے کم کتابیں منظور کرے۔ پوری دنیا میں ہی ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں پہلی سے لے کر میٹرک تک خدا جانے یہ نجی تعلیمی ادارے کون کون سے مہنگی پبلشرز سے ملکی و غیرملکی گراں قیمت کتابیں ضروری قرار دیتے ہیں۔ چوتھی یا چھٹی کلاس کے بستے کا بوجھ دیکھ تو دل گھبراتا ہے کہ یہ ننھے منے بچے اتنا بھاری بوجھ کیسے اٹھاتے ہیں اور ان کے والدین کا گھریلو بجٹ ان مہنگی کتابوں کی وجہ سے کیسے ڈسٹرب ہوتا ہے۔ اس لئے پورے ملک میں یکساں سرکاری تعلیمی نصاب اور سرکاری ٹیکسٹ بورڈ کے تحت کم از کم کتابوں کی منظوری دیکر تعلیم سستی کی جائے۔
٭٭٭………٭٭٭
اگلی حکومت ہماری‘ اب پنجاب میں ڈیرے ڈالوں گا: آصف علی زرداری
کھویا ہوا پنجاب حاصل کرنا پیپلزپارٹی کا پرانا خواب ہے مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اب نہ وہ پیپلزپارٹی رہی نہ وہ پنجاب جن کے درمیان رومانس کی وجہ بھٹو اور بے نظیر تھے۔ جس طرح پیپلزپارٹی والوں نے پنجاب کو نظر انداز کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس دوران خود پنجاب سے ابھرنے والی قیادت نے نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ (نون) لاہور کا تخت کچھ اس طرح چھینا کہ تحریک انصاف کے علاوہ کوئی اور جماعت اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ اب پنجاب کو لبھانے کے لئے تخت لاہور پر قبضہ جمانے کیلئے پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے پنجاب میں ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ تخت اسلام آباد آ جانے کا واحد راستہ فتح پنجاب ہے۔ مگر شاید اب یہ راہ آسان نہیں رہی۔ یہاں مسلم لیگ (نون) اور تحریک انصاف کے جگہ جگہ اپنی قلعہ بندیاں مستحکم کر لی ہیں۔ مگر آصف علی زرداری نے لگتا ہے ہمت نہیں ہاری اور اب انہوں نے تازہ دم ہو کر بلاول کی وزارت خارجہ کی مصروفیات کے باعث پارٹی کی کمان ایک بار خود سنبھال لی ہے تو دیکھنا ہے اب وہ کون کون سے سیاسی داؤ کھیلیں گے۔ اس کام میں انہیں مہارت تامہ حاصل ہے۔ معلوم نہیں پارٹی کمان انہوں نے اپنے فرزند وزیر خارجہ بلاول سے مشورہ کرکے سنبھالی ہے یا ازخود ہی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ایسے فیصلے خاصے نازک ہوتے ہیں اور بعد میں کشیدہ صورتحال کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ مگر زرداری جی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں بہت کچھ دیکھ بھال کی انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہوگا۔۔۔۔
٭٭٭………٭٭٭