شیخ سعدی کی حکایت ہے کہ ایک وزیر کشتی کے سفر سے بہت ڈرتا تھا ایک روز جب بادشاہ سلامت نے دریا کی سیر کا پروگرام بنایا تو وہ وزیر بھی ہمراہ تھا وہ وزیر دریا اور اسکی گہرائی سے اسقدر خوفزدہ تھا کہ کشتی میں سواار ہوتے ہی چلانا شروغ کردیا بادشاہ کاسارا مزہ کرکرا ہوگیا بادشاہ نے کسی دوسرے وزیر سے پوچھا کہ اسکا کیا حل ہے اس وزیر نے کہا کہ اس وزیر کو دریا کے پانی میں ڈبکیاںگواؤ جب اس تدبیر پر عمل کیا تو وزیر ایک طرف خاموشی سے بیٹھ گیا ایک حقیقت تو یہ سامنے آئی کہ دریا کی گہرائی کا اندازہ دریا میں اترنے کے بعد ہی ہوتا ہے ہمیں کورونا کی شدت کا اندازہ اسوقت ہوا جب مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے قبل قوت فیصلہ میں کمی باہمی محاذ آرائی اور غیر سنجیدہ رویوں نے اس کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہونے دیا تھا ایک تاثر تو یہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان کی آب و ہوا اور موسمیاتی اثرات کی بدولت یہاں کرونا کا پھیلاؤ ناممکن ہے اس بیانیہ نے کنفیوژن کو جنم دیا دوسری طرف عوام کو جو لاک ڈائون میں سہولت دی گئی عوام نے اسکو غنیمت نہ سمجھا اور بازاروں اور مارکیٹوں میں ہجوم نظر آنے لگا اس پر طرہ یہ کہ معیشت کو رواں رکھنے کیلئے لاک ڈاؤن میں جو نرمی کا فیصلہ کیا گیا تھا نہ معیشت میں استحکام آیا نہ کورونا کو روکا جاسکا معیشت کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے گزشتہ برس معاشی نمو کی شرح 9'1 فی صد تھی اور اس برس زیرو اعشاریہ پانچ فیصد ہے ۔قرضوں کا حجم چالیس کھرب سے تجاوزکرگیا خسارے کا بجٹ 7 فیصد ظاہر کیا گیا جب کیاش شرح کے نو فیصدبڑھ جانے کے امکانات موجود ہیں احساس پرگرام کے تحت رکھی جانے والی رقم کیا۔
کرونا سے نمٹنے کے لیے کافی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قومی امدنی کی شرح نمو ہے تو بجٹ کے مطابق یہ شرح دو اعشاریہ چھ تک کیسے بڑھایا جاسکتا ہے جبکہ امپیریل کالج لندن کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اگست تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بارہ لاکھ ہوسکتی ہے اسد عمر نے بھی اس خدشے کا اظہار کرکے انہوں نے جس خطرے کی گھنٹی کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے تحت مریضوں کی تعداد میں بارہ لاکھ تک اضافہ ممکن ہے اب مسئلہ تو یہ ہے کہ کرونا کے گلے میں گھنٹی کون باندھے عوام جنہوں نے ایس وپیز کو پس پشت ڈال دیا اب انتظامیہ کا فرض ہے کہ سنجیدگی سے ایس او پیز پر عمل کروائے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب صوبے اور وفاق ایک پلیٹ فارم پر ہوں محاذ آرائی مضبوط فیصلہ سازی کا فقدان اور بروقت عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث اڑھائی ماہ میں مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وہ حکمت اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو دوسرے ممالک نے اختیار کی آج فرانس اٹلی اور فلپائن میں زندگی کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں جہاں پر یہ گمان تھا کہ یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ جائے گی اب وہاں مریضوں کی تعدادتین سو یا پانچ سو یومیہ ہے سکاٹ لینڈ اسرئیل، چلی اور رومانیہ کے وزیر صحت کے استعفوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ کرونا پر قابو پانے میں ناکام رہے ڈبلیو ایچ او کے مطابق دو ہفتے کا سخت لاک ڈائون ہی مریضوں کی تعداد میں کمی کا باعث ہو سکتا ہے لاک ڈاؤن میں نرمی سے کیسز میں اضافہ ہوا انڈسٹریز کے کھلنے سے تعداد دگنی ہوگئی آج ہمیں اس فیصلہ سازی کی ضرورت ہے کہ نہ صرف غفلت برتنے والوں کا احتسا ب ہو بلکہ عوام سے بھی ایس و پیز پر عمل کروایا جائے اور اس کیلئے مثر لا ڈائون کی ضرورت ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024