ہم نے اپنی حیات مستعار میں یہ دیکھا ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ کوئی حکم صاد ر کرتی ہے تو حکومت و متعلقہ ادارے فوراً اس پر عمل کرتے ہیں اگر ذرا سی بھی بے احتیاطی ہو تو سپریم کورٹ سیخ پا ہونے کے علاوہ فوراً اس پر عمل کرتے ہیں اگر ذرا سی بھی بے احتیاطی ہو تو سپریم کورٹ فوراً اپنے اس حکم پر من و عن عمل کراتی ہے۔ مگر سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ یا حکم ایسا ہے جس پر آج تک کسی حکومت نے عمل کرناضروری نہیں سمجھا ۔یہ ایک قومی المیہ ہے جو کہ 73 سال سے ابھی تک حل طلب ہے۔ حضرت قائداعظم نے مسلم لیگ کے 10 اپریل 1946ء کو دہلی میں ہونے والی اجلاس میں قیام پاکستان سے قبل ہی فرما دیا تھا کہ ’’میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی‘‘ قیام پاکستان کے بعد 21 مارچ 1948ء کو بابا ئے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ ’’اردو کے سوا کوئی زبان نہیں‘‘ اور یہ کہ ’’اردو کی پرورش برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے کی ہے۔‘‘ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ ’’میری لسانی عصبیت کے اعتبار سے میری دینی عصبیت سے کم نہیں‘‘ قیام پاکستان کے فوراً بعد قومی زبان اردو کے نفاذ کا فیصلہ25 فروری 1948ء کو قائداعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا اور قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی پھر 1956ء کے دستور میں اردو کو بطور قومی و سرکاری زبان نافذ کرنے کا حکم دیا گیا۔ 1962ء کے آئین میں بھی قومی زبان اردو ہی قار پائی۔ 1973ء کے آئین میں تو باقاعدہ پندرہ سال کی مدت مقرر کردی گئی کہ 1988ء تک اسے باقاعدہ نافذ کردیا جائے گا مگر اس کے بعد بھی کئی پندرہ سال گزر چکے ہیں نہ ہی عدلیہ نے اس آئین شکنی کا نوٹس لیا اور نہ ہی کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ دی۔ پھر 2002ء میں عدالت میں نفاذ اردو کیلئے مقدمہ دائر کردیا گیا جس کا فیصلہ تیرہ سال بعد 8 ستمبر 2015ء سپریم کورٹ نے قانون کے مطابق نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صابحان جواد ایس خواجہ ظہیر جمال اور آصف سعید کھوسہ انگریزی زبان کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ قرار دے چکے ہیں۔ نفاذ اردو کے بارے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی پانچ سال ہونے کو ہیں مگر بڑی دیدہ دلیری سے اس حکم کی نافرمانی کی جارہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی اپنے اس فیصلے پر عمل کرانے کی بجائے ’’خاموش‘‘ ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مملکت قائداعظم محمد علی جناح کی انتھک جدوجہد کا ثمر ہے۔ ویسے تو تمام حکومتی اداوں میں بانی پاکستان کی تصاویر آویزاں ہیں مگر ان کے فرمودات کو ہم نے طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ چھوٹی اور معمولی باتوں پر عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لیتی ہے مگر قومی سلامتی کا ایسا اہم مسئلہ جو کہ قائداعظم کے واضح فرامین اور متفقہ آئین 1973ء کا عکاس ہے۔ اس کے عدلیہ اور حکومت دونوں ’’خاموش‘‘ ہیں۔ عرض ہے کہ یہ کام کسی کی بھی ذاتی پسند یا ناپسند کے مطابق تو ہوتا نہیں ہے تو پھر حیلوں بہانوں اور ٹال مٹول سے کیوں کام لیا جارہا ہے؟ اگر کوئی انگریزی یا کسی اور زبان کو اس ملک میں نافذ کرانے کے خواب دیکھتا ہو تو یہ محض ’’خواب‘‘ ہی رہے گا۔ تحریک پاکستان کے دوران اردو کا کردار بھی سب پر عیاں ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ 73 سالوں میں ہم آج تک اپنی قومی زبان اردو کو نافذ نہیں کرسکے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی پانچ سال گزر چکے ہیں مگر بے حسی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جسٹس فواد ایس خواجہ نے تو مظفر آباد میں ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ ججز صاحبان کو خود انگریزی نہیں آتی اور اردو کو فوراً نافذ ہونا چاہئے۔ ہمارے دفاتر کا یہ عالم ہے کہ سارا دن کی محنت کے بعد بابو صاحب جو خط یا ڈرافٹ تیار کرتے ہیں ان میں نہ انگریزی دوست ہوتی ہے نہ معنی و مفاہیم کا پتہ چلتا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی بہت اچھی ترجمانی اس شعر سے ہوتی ہے۔نہ اردو ہے زبان میری، نہ انگلش ہے زباں میری
زبان مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنے مضمون میں لکھ اتھا کہ’’وہ زبان جس نے پاکستان کا پیغام گھر گھر پہنچایا اور اس کا نام بچے بچے کی زبان پر جاری ہوگیا، یہ نعمت ہمیں اسی کی بدولت نصیب ہوئی… اس زبان کو ہمارے تنگ نظر ، کوتاہ اندیش سیاست کار اپنی بے تہ سیاست پر قربان کرنا چاہتے ہیں‘‘ لہٰذا وزیراعظم جناب عمران خان فوری طور پر قومی زبان کے نفاذ کا اعلان کریں۔ بقول ماہر القادری…؎
اس ملک میں چاہے، سن برسے
اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024